ویب ڈیسک،
ڈس انفو لیب 2020کے وسط میں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ کرنل دبیا ستاپاتھی نے قائم کی واشنگٹن پوسٹ نے مودی کے 35 وزراء، 14 سرکاری افسران اور مودی حکومت کے 61 تنخواہ دارصحافیوں کی شناخت کی
واشنگٹن :امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے بھارت اور بھارت سے باہر تنقیدی آوازوں کودبانے کیلئے مودی حکومت کی خفیہ کارروائیوں کوبے نقاب کردیاہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کی چشم کشا رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی حکومت نے وزیر اعظم نریندر مودی نے ذاتی تشہیر اور تنقیدی آوازوں کودبانے کیلئے ڈس انفو لیب کے نام سے امریکہ میں تنظیم بنائی، ڈس انفو لیب مودی پر تنقید کرنے والے ہر شخص اور تنظیم کا تعلق کسی نہ کسی اسلامی یا سازشی گروپ سے ظاہر کرتی اور اسے مودی کے خلاف عالمی سازش قراردیتی ۔رپورٹ کے مطابق ڈس انفو لیب 2020کے وسط میں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ کرنل دبیا ستاپاتھی نے قائم کی۔
ڈس انفو لیب نے پاکستان مخالف اور مودی کے حق میں متعددتفصیلی رپورٹس اور سوشل میڈیا پوسٹیں کیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ دبیا ستاپاتھی نے بھارت کے بارے میں بین الاقوامی تاثرات کو تشکیل دینے کیلئے کام کیا اور انہوں نے بھارت کے حق میں کوریج اور مخالفوں پاکستان اور چین کی تنقیدی کوریج کے حصول کیلئے مغربی صحافیوں سے ملاقات کی۔واشنگٹن پوسٹ نے دعوی کیا کہ یہ ادارہ ایک خفیہ اثر و رسوخ کا آپریشن چلا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈس انفو لیب نے مبینہ طور پر عالمی اسلامی گروپ اور عرب پتی جورج سوروس کی قیادت میں بھارت کو کمزور کرنے کیلئے امریکی حکومتی حکام، محققین، انسانی ہمدردی کے گروپ اور بھارتی-امریکی حقوق کے کارکنوں پر اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ان الزامات کو نریندر مودی کے حمایتی گروپوں نے بڑھایا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، ان دعوئوں نے بھارت کے مرکزی میڈیا میں بھی اپنی جگہ بنائی اور امریکن کانگریس میں بھی اسے پیش کیا گیا۔ان رپورٹس کو پھیلانیوالے 250ٹویٹر اکائونٹس میں، واشنگٹن پوسٹ نے مودی کے 35وزرا، 14سرکاری افسران اور مودی حکومت کے 61تنخواہ دارصحافیوں کی شناخت کی ہے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈس انفو لیب کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے چلایا جانیوالا آن لائن پروپیگنڈا مخالفین کو بدنام کرنے اور مقبول حمایت حاصل کرنے کے انکے روایتی اور مقامی مقاصد سے آگے بڑھ گیا ہے۔رپورٹ میں ایلون مسک کے اس دعوے کا بھی ذکر کیاگیا ہے کہ مودی حکومت نے رواں سال جنوری میںایکس (سابقہ ٹویٹر )سے مودی مخالف مواد ہٹانے کیلئے دبائو ڈالا تھا۔بھارت میں رواں سال فروری میں مودی مخالف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے تھے۔ نریندر مودی پر تنقید کے جرم میں کانگریس رہنما راہول گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی معطل کر دی گئی تھی ۔واضح رہے کہ عالمی میڈیا اس سے قبل مودی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے اسلامو فوبیا کو ہوا دینے کے لیے واٹس ایپ اور فیس بک گروپ بنانے کے سوشل میڈیا آپریشنز کو بے نقاب کر چکا ہے۔