تشکُّر نیوز رپورٹنگ،
پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے سے معاشرے کے تمام طبقات متاثر ہوں گے، صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوگی، افتخار شیخ
کراچی: چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 5 سے 9 روپے فی لیٹر کے درمیان اضافہ متوقع تھا لیکن مقامی طور پر پٹرول کی قیمت میں 13.55 روپے فی لیٹر اضافہ کرنا انتہائی ناانصافی ہے جو کہ معاشرے کے تمام طبقات کو بری طرح متاثر کرے گا باالخصوص عام لوگوں کی مشکلات میں بے حداضافے کے ساتھ ساتھ صنعتی پیداوار کو بھی بری طرح متاثرہوگی کیونکہ کاروباری لاگت یقینی طور پر بڑھ جائے گی۔
ایک بیان میں صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ جب ڈالر آج کل کچھ مستحکم ہے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافے کا کوئی جواز نہیں جو کہ اگر ضروری تھا بھی تو 5 روپے فی لیٹر اضافہ کیا جاتا تاکہ غریب عوام پر اس کا کم سے کم اثر پڑتا جو مہنگائی کے موجودہ دور میں ضرورت سے زیادہ بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت 60 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے جو کہ متعلقہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ قابل اجازت کی حد ہے۔ حکومت کو مشکلات کو کم کرنے کے لیے مقامی و بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کے فرق سے نمٹنے کے لیے پیٹرولیم لیوی کو کسی حد تک کم کرنا چاہیے تھا جو کہ بدقسمتی سے نہیں کیا گیا۔نگران حکومت عوام اور صنعتوں کو نچوڑنے کے لیے پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کرکے بے رحمانہ فیصلے کرتی رہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ تاجر برادری پالیسی ریٹ میں کم از کم 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی توقع کر رہی تھی لیکن بدقسمتی سے اسٹیٹ بینک کے افراط زر کی شرح 23 سے 25 فیصد کی حد میں آنے والے دنوں میں گرجانے کے دعوے کے باوجود اسے 22 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش معاشی بحرانوں کے پیش نظر حکومت کو اخراجات پر قابو پانے اور بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ ریونیو حاصل کرنے کے لیے متبادل اقدامات کرنے ہوں گے اور عوام پر اس کا بوجھ ڈالنے کے بجائے عوام اور صنعت کو کچھ سکھ کا سانس دینے کو یقینی بنانے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو قیمتوں میں لگاتار اضافے کی وجہ سے ہونے والا نقصان برداشت نہیں کر سکیں گے۔
افتخار شیخ نے کہا کہ ریاست کے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کے بجائے غریب عوام اور صنعتوں کو مفلوج کیا جارہاہے جس کے نتیجے میں صنعتی پیداوار اور برآمدات میں کمی آئی ہے جس نے معیشت کو ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔غیر پیداواری اخراجات کو روکنے کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز نافذ کرنے کی ضرورت ہے نیز ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے علاوہ پائیدار ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے تاکہ ملک کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سنگین معاشی صورتحال سے مؤثر انداز میں نمٹنا ہوگا بصورت دیگر پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے بڑھتے نرخ کاروباری لاگت میں اضافہ کرتے رہیں گے جس سے صنعتی کارکردگی بری طرح متاثر ہو گی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو گا باالخصوص معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقات کے لیے مہنگائی کا سیلاب آجائے گا اور ناقابل برداشت مہنگائی کی وجہ سے غریب غریب تر ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے درآمدی و برآمدی کارگو کے چارجز، بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، مینٹیننس لاگت و دیگر اخراجات کے ٹرانسپورٹیشن چارجز پر بھی منفی اثرات پڑیںگے گا جو کہ تیار شدہ اشیاء کی قیمت کو مجموعی طور پر متاثر کرے گا اور مینوفیکچرنگ و برآمدات کے شعبوں کو بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر مسابقتی بنا دے گا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت مہنگائی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لے گی اور اس کے مطابق ملک کے وسیع تر مفاد میں عام آدمی کی زندگی اور صنعت پر بوجھ کو کسی طرح سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔