انتخابی نشان الاٹ نہ کرنا آئین کی شق 17 دو کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر علی ظفر

شکُّر نیوز رپورٹنگ،

الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشنز کی سکروٹنی اور انہیں کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان روکنے کا اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں دلائل

اسلام آباد ( 13 جنوری 2024ء ) پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ انتخابی نشان الاٹ نہ کرنا آئین کی شق 17 دو کی خلاف ورزی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔آج کی سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور حامد خان دلائل دینے کے لیے عدالت کے روبرو پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ آ گیا ہے، کیا آپ نے فیصلہ پڑھ لیا ہے؟‘، اس کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’جی پڑھا ہے اور ہمیں علم ہے کہ آج آخری دن ہے‘، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’جی علم ہے لیکن آپ کو علم ہے کہ ہمیں آرڈر بھی دینا ہے‘۔

اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشنز کی سکروٹنی اور انہیں کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان روکنے کا اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان الاٹ نہ کرے، سیاسی جماعت ایک نشان پر آئین کے مطابق الیکشن میں حصہ لیتی ہے، کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنا آئین کی شق 17 دو کی خلاف ورزی ہے‘۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلئے تھے، دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ’حامد خان آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں، ہم بھی تھک گئے ہیں، انہوں نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ آج دلائل دیں گے یا کل؟ ہم کل صرف آپ کیلئے بیٹھیں گے، بتائیں کس وقت سماعت رکھیں، ہم انتخابات کروانا چاہتے ہیں، آپ جو چاہیں گے ہم وہ کریں گے، فیصلہ نہیں صرف سماعت کا وقت کہہ رہا ہوں‘، اس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی تھی۔

 

 

قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر نشان نہ ملا تو آپ کو بھی نقصان نہیں ہوگا؟ آپ بھی تو ممبر ہیں پارٹی کے، آپ اصولوں پر کیس لڑنا چاہتے ہیں، جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں ہورہے، اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں، کچھ ٹیکنیکل چیزیں ہیں وہ نظر انداز کر دیتے ہیں، ایک بنیادی چیز ہے جمہوریت، جمہوریت ملک میں بھی ہونی چاہیے اور پارٹی میں بھی ہونی چاہیے، آرٹیکل 17 تو یہی کہہ رہا ہے، آرٹیکل 17 کا ڈیکلریشن تو دیں، اگر الیکشن ٹھیک تھے تو پھر نشان دینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!