تشکر نیوز کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے مختلف ارکان نے سندھ ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز کے لیے کئی نمایاں شخصیات کو نامزد کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز کی منظوری شدہ تعداد کے مقابلے میں اس وقت 28 ججز کام کر رہے ہیں، اور 21 دسمبر کو ہونے والے جے سی پی اجلاس میں خالی اسامیوں کو پر کرنے کے لیے ان نامزدگیوں پر غور کیا جائے گا۔
ذوالفقار بھٹو کیس: ٹرائل اور فیصلے پر سوالات، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہ ہونے کا انکشاف
اہم تفصیلات:
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی نامزدگیاں:
چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے 13 افراد کو نامزد کیا، جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، معروف وکلا، اور لا افسران شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز: سریش کمار اور خالد حسین شاہانی۔
معروف شخصیات: سابق جسٹس عطاالرحمٰن کے صاحبزادے عبید الرحمٰن، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی صاحبزادی عمیمہ انور خان۔
دیگر: کراچی بار کے سابق صدر امین لاکھانی کے بیٹے محمد عمر لاکھانی، اور پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کے ساتھی ذیشان عبداللہ۔
جے سی پی کے دیگر ارکان کی سفارشات:
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور ضیا الحسن لنجار نے وکلا اور افسران کے نام پیش کیے، جن میں شازیہ ہنجرہ (جسٹس عدنان الکریم میمن کی اہلیہ) اور قاضی بشیر شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل حق نواز تالپور اور دیگر کو نامزد کیا۔
دیگر نامزدگیاں:
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہ محمد شاہ کے بیٹے یاسر احمد شاہ کا نام تجویز کیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ نے سینئر وکیل چوہدری عاطف رفیق کو نامزد کیا۔
اہم شخصیات کی شمولیت:
عشرت علوی (ریٹائرڈ جسٹس زاہد قربان علوی کے بیٹے)۔
سید نوید قمر کے بھائی میران شاہ۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ ڈاکٹر فیض شاہ۔
پس منظر اور اجلاس کی اہمیت:
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ابتدائی طور پر نامزدگیاں پیش کی تھیں، جنہیں جے سی پی کے 6 دسمبر کے اجلاس میں شامل کیا گیا تھا۔ تاہم مزید مشاورت کے لیے اجلاس 21 دسمبر تک موخر کر دیا گیا۔ سندھ میں ججز کی تعداد میں کمی کے باعث اس اجلاس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اور جے سی پی میں مختلف سیاسی جماعتوں، قانونی ماہرین، اور بار کونسل کے نمائندوں کی جانب سے نامزدگیاں کی گئی ہیں۔
نتائج کا اثر:
ایڈیشنل ججز کی تقرری سے سندھ ہائی کورٹ کی کارکردگی میں بہتری متوقع ہے۔ تاہم سیاسی اثر و رسوخ اور تعیناتیوں میں ممکنہ تنازعات کے باعث یہ عمل مزید بحث و مباحثے کا باعث بن سکتا ہے۔