(تشکر نیوز) افغانستان میں خواتین کی طبی تعلیم پر طالبان حکومت کی تازہ پابندیوں کے باعث زچگی کے دوران اموات میں خطرناک اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
آئی ٹی برآمدی آمدنی میں اضافہ، زرمبادلہ پاکستان لانے میں رکاوٹیں
ماہرین کی رائے:
ڈاکٹر نجم السما شیفاجو، جو کابل میں ایک نجی ہسپتال چلاتی ہیں، نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ پابندیاں آئندہ 3 سے 4 سال میں زچگی کے دوران شرح اموات کو خطرناک حد تک بڑھا سکتی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ گھریلو پیدائش کے بڑھتے رجحان سے پیچیدگیوں کی صورت میں فوری علاج ممکن نہیں ہوگا، جس کے مہلک نتائج ہو سکتے ہیں۔
اعداد و شمار اور اثرات:
- یونیسیف کے مطابق افغانستان کو پہلے ہی خواتین ہیلتھ ورکرز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
- طالبان کی نئی پابندیوں سے 35 ہزار خواتین متاثر ہوں گی جو طبی تربیتی مراکز میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
- ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نمائندے میکائیل لی پائی نے کہا کہ افغانستان میں پہلے ہی زچگی کے ماہرین کی کمی ہے، اور یہ پابندیاں صحت کے نظام کو مزید کمزور کریں گی۔
عالمی اداروں کا ردعمل:
اقوام متحدہ نے خواتین کی طبی تعلیم پر پابندی کو "صنفی امتیاز” قرار دیا ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ خواتین طبی ورکرز کی کمی سے افغانستان میں بہت سی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی، خاص طور پر ان خواتین اور بچوں کی جو ثقافتی طور پر خواتین ہیلتھ ورکرز پر انحصار کرتے ہیں۔
خواتین کی تعلیم پر تباہ کن اثرات:
پابندی کے باعث مڈوائفری، نرسنگ، دندان سازی اور دیگر طبی شعبوں میں خواتین کی شمولیت محدود ہو جائے گی، جو افغانستان کے پہلے سے کمزور صحت کے نظام کو مزید بحران میں ڈال دے گی۔
نتیجہ:
ماہرین اور عالمی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ خواتین کی طبی تعلیم پر پابندی نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے صحت کے شعبے پر دیرپا اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر زچگی اور خواتین کی صحت کے حوالے سے۔