وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی شرائط پوری کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ تمام شرائط وقت پر پوری ہوجائیں گی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کا بوجھ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی آرہی ہے اور اگست میں مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آگئی، گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران یہ شرح 27 فیصد تھی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سفر طویل ہے، ہمیں تیزی سےآگے بڑھنا ہے اور محصولات کی مد میں بدعنوانی کو ختم کرنا ہے، اسمگلنگ کا خاتمہ کرنا ہے، یہ کٹھن سفر ہے لیکن ناممکن نہیں ہے منزل تک ضرور پہنچیں گے۔
فوجی تحویل میں دیے جانے کا خدشہ، عمران خان نے عدالت سے رجوع کرلیا
انہوں نے کہا کہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں، معدنیات اور قدرتی وسائل موجود ہیں، اخراجات کم کرنے کی کوشش کو تیز کرنا ہوگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پوری کرنےکےلیےاقدامات کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ تمام شرائط وقت پر پوری ہوجائیں گی اور بورڈ میں ہمارا کیس جائے گا اور منظوری کے بعد ایک نیا سفر شروع ہوگا اور ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے درکار بیرونی مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب سے قرضہ بڑھانے کی درخواست کی تھی۔
پاکستان نے مبینہ طور پر سعودی عرب سے اپنے موجودہ 5 ارب ڈالرز کے پورٹ فولیو میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالرز قرض مزید بڑھانے کی درخواست کی، تاکہ عالمی مالیاتی فنڈز کے 37 ماہ کے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے ضروری بیرونی مالیاتی فرق کم کرنے میں مدد ملے جب کہ یہ پیکج آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری تک زیر التوا ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق تینوں دوست دوطرفہ شراکت داروں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے اپنے 12 ارب ڈالرز قرض کو رول اوور کرنے کے حوالے سے اپنے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے ذریعے آئی ایم ایف کو تصدیق کرنا ہوگی۔
اس کے علاوہ حکومت نے وزیر خزانہ کی زیر صدارت کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا، جس میں وزیر توانائی اویس لغاری اور وفاقی وزیر علی پروز ملک سمیت دیگر شامل ہوں گے، جو کہ چینی حکام اور توانائی کے شعبے کے سرمایہ کاروں اور اسپانسرز سے چینی معاشی ایڈوائزری فرم سے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے۔
حکومت نے گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی تھی کہ وفاق نے تین دوست ممالک کے ساتھ 27 ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں اور واجبات کی ری پروفائلنگ کے عمل کو شروع کردیا ہے، جبکہ ری پروفائلنگ یا 12 ارب ڈالر رول اوور دراصل آئی ایم ایف کی جانب سے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت مقرر کردہ شرط ہے۔
جبکہ اسلام آباد نے توانائی کے شعبے میں 15 ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کرنے اور درآمدی کوئلے پر مبنی منصوبوں کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے کی بیجنگ سے درخواست کی تھی، تاکہ بروقت ادائیگیوں میں مشکلات کے پیش نظر مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکے، جس سے توانائی کے شعبے میں زرمبادلہ کے اخراج اور صارفین کے ٹیرف میں آسانی ہو۔
اس وقت پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب کے پاس 5 ارب ڈالرز، چین کے پاس 4 ارب ڈالرز اور متحدہ عرب امارات کے پاس 3 ارب ڈالرز موجود ہیں، جبکہ پاکستان نے سعودی عرب سے مزید 1 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز کی درخواست کی ہے، جو کہ دو طرفہ تجارتی قرض کی صورت میں آنے کی توقع ہے، جبکہ یہ حفاظتی ڈیپازٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے اپنے ہم منصب کو اضافی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی تصدیق کے لیے ’عمل‘ میں وقت لگ رہا تھا۔
37 ماہ کے قرض پروگرام میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے سالانہ فارن ایکسچینج کی ضروریات کے حوالے سے پلان ترتیب دیا ہے، جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہم منصبوں سے تعلقات کی بنا پر جلد توسیع کی امید تھی، جبکہ یقین دہانیوں کے ساتھ اگست کے آخری ہفتے میں وزیر خزانہ آئی ایم ایف بورڈ سے رابطے میں تھے، تاکہ ستمبر تک عارضی طور پر نظر ثانی کی جا سکے۔
جبکہ 28 جولائی جو چین سے واپسی پر وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ تینوں دوست ممالک کے ہم منصبوں نے پاکستان کو بیرونی معاشی فرق کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت مقام پر پہنچنے میں مدد کی یقین دہانی کرائی۔
واضح رہے 27 جولائی کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے چین کے مرکزی بینک کے گورنر پین گونگ شینگ سے ملاقات کی اور دو طرفہ مالیاتی تعاون پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
وزیر خزانہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے تجویز کردہ اصلاحات کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کے قرضوں میں ریلیف پر بات چیت کے لیے جمعرات کو بیجنگ پہنچے۔
اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کے نتائج کے بارے میں فکر مند ہیں، اگر معاملات ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئے تو غیر ملکی سرمایہ کاری اور شرح مبادلہ کے استحکام کے نتائج پر اثر پڑسکتا ہے۔
صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے سینئر بینکر نے کہا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ چین توانائی کے شعبے کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی پاکستان کی درخواست کو یکسر مسترد نہیں کرے گا، لیکن حتمی نتائج زیادہ مثبت دکھائی نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا تھا کہ چین ابتدائی طور پر اس معاملے پر بات کرنے سے ہچکچا رہا تھا، جس کی وجہ سے دورہ تاخیر کا شکار ہوا، اور اس سے توانائی کے شعبوں کے قرضوں سے متعلق بات چیت پر پاکستان کے ساتھ ان کے اختلاف کا اشارہ ملتا ہے۔