حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے معاہدے کے باوجود احتجاج جاری، سیکیورٹی اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں

تشکر نیوز: حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کے درمیان معاہدے کے باوجود، کوئٹہ، گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال دیں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

تشکر نیوز کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان کے سرکاری حکام نے بتایا کہ معاہدے کے بعد درجنوں مظاہرین اور بی وائے سی کے حامیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، اور اب کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ احتجاج ختم کرے۔ تاہم، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ نوشکی کے علاقے میں حالات مزید خراب ہو چکے ہیں، جہاں سڑکوں کو بلاک کرنے کے بعد جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔ کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا، حالانکہ سرکاری حکام نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن نوشکی کے مقامی حکام نے جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔

شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی سے برطرفی کی خبر پر تنازع، نوٹیفکیشن کی تصدیق میں اختلاف

وزیرداخلہ بلوچستان میرضیا لانگو نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ بی وائے سی اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور کمیٹی صوبے بھر میں دھرنے ختم کر دے گی۔ مذاکرات میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے ماجد سورابی، اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مولانا عبدالحمید نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔

معاہدے کے تحت، گوادر میں ضلعی انتظامیہ اور بی وائے سی کے درمیان 7 نکات پر مشتمل معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق 70 کارکنوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ معاہدے کے نکات میں شامل ہیں:

  • دھرنا ختم کرنے سے قبل بلوچستان اور کراچی میں راجی مچی کے دوران گرفتار افراد کی رہائی۔
  • سندھ حکومت سے رابطہ کر کے سندھ میں گرفتار افراد کی رہائی کو یقینی بنانا۔
  • راجی مچی کے دوران درج مقدمات واپس لینا، سڑکیں کھولنا اور موبائل نیٹ ورک کی بحالی۔
  • انتظامیہ اور بی وائے سی کی مشترکہ کمیٹی قائم کرنا، اور حکومتی قبضے میں موجود اشیا کی واپسی۔
  • دھرنا ختم ہونے کے بعد کسی بھی شرکا کو ہراساں نہ کرنا اور جاں بحق یا زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کی مدعیت میں مقدمات درج کرنا۔

بی وائے سی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے حکومتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے کارکنان اور حامی ابھی بھی زیر حراست ہیں، اور معاہدے پر مکمل عملدرآمد تک احتجاج جاری رہے گا۔ حکام نے بتایا کہ گوادر دھرنے کے دوران گرفتار 80 کے قریب ارکان کو رہا کر دیا گیا ہے، اور مزید رہائی جاری ہے۔

محکمہ داخلہ کے سینئر اہلکار نے تصدیق کی کہ تقریباً 80 گرفتار افراد کو رہا کیا گیا ہے، اور بی وائے سی کے رہنما نے جمعہ کی صبح 11 بجے تک احتجاج ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بلوچستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کامیاب مذاکرات کے بعد بی وائے سی نے دھرنا ختم کر دیا ہے، اور حکومت نے ان کے مطالبات کو عوام کے مفاد اور گوادر کے مستقبل کے لیے حل کیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بحال کی جائیں گی، اور دھرنے کے بعد کسی بھی شہری کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

 

 

بی وائے سی نے انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی کی وجہ سے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں رکاوٹ کی شکایت کی، لیکن بیبرگ بلوچ نے تصدیق کی کہ کوئٹہ میں پرامن احتجاج جاری ہے۔

55 / 100

One thought on “حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے معاہدے کے باوجود احتجاج جاری، سیکیورٹی اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!