اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کرانے اور اُنہیں کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق نے داؤد ایڈووکیٹ کی درخواست پرسماعت کی۔
جسٹس طارق محمود کی تعلیمی اسناد کی تصدیق، کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
دوران سماعت میاں داؤد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ میں نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی چیلنج کی ہے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے آپ کی درخواست پر اعتراضات عائد کیے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کااعتراض ہےکہ جوڈیشل کمیشن کےخلاف رٹ کیسے قابل سماعت ہے، آپ نے جوڈیشل کمیشن کو کیس میں فریق کیوں بنایا ہے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ جوڈیشل کمیشن یا فیڈریشن کے خلاف کوئی رٹ جاری کریں، جسٹس طارق جہانگیری کے علاوہ تمام فریقین کو صرف ریکارڈ طلبی کی حد تک فریق بنایا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے تو یہ اعتراض ایسے ہی لگا دیا، رجسٹرار آفس کو جو اصل میں کہناچاہیے تھا وہ انہوں نے نہیں کہا، کیا اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کو وارنٹو کی رٹ قابلِ سماعت ہے؟
پاکستان معاشی بحران میں مبتلا ہے اور تمام لوگ مایوسی کا شکار ہیں، مصطفٰی کمال
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ فاضل جج اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے، انکوائری کروا لیں، وکیل نے 1998 کا سپریم کورٹ کے سجاد علی شاہ کیس کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا، انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے لیٹرز پر سوشل میڈیا اور میڈیا پر بحث ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ابھی آپ میرٹ کی حد تک بات نا کریں قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔
بعد ازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کرانے اور اُنہیں کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ 6 جولائی کو تشکر اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری سے متعلق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خط اور سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جج کے خلاف مہم پر بیان جاری کیا جاسکتا ہے۔
اس سے ایک روز قبل سوشل میڈیا صارفین اور متعدد صحافیوں نے جسٹس جہانگیری کے خلاف خط اور مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس کو شیئر کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ججز اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر حکام کو خط کے بارے میں مطلع کیا گیا اور عدالتی انتظامیہ نے اس کی تردید جاری کرنے کی پیشکش کی، تاہم جسٹس جہانگیری نے ابھی تک اس کارروائی کی منظوری نہیں دی۔
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے معاملے کے حوالے سے کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانے والا خط، مبینہ طور پر سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، 2016 کے تحت معلومات طلب کرنے والی درخواست کے جواب میں جاری کیا گیا، درخواست میں کہا گیا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
تاہم، امتیاز احمد نے اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت 1987 میں داخلہ لیا تھا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔
مزید برآں، طارق محمود نے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے داخلہ لیا، خط میں ڈگری کو بوگس قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے غلط قرار دیا گیا، اور وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے، یعنی ایک پروگرام کے لیے کسی طالب علم کا دو انرولمنٹ رکھنا ناممکن ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس جہانگیری ان 6 ججز میں شامل ہیں جنہوں نے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل سے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی تھی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا، شکایت میں ججز کے داخلی دروازے اور بیڈ روم پر جاسوس کیمرے لگانے کے الزامات بھی شامل تھے، یہ معاملہ مبینہ طور پر چیف جسٹس تک پہنچایا گیا تھا۔
جسٹس جہانگیری گزشتہ سال مئی میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب انہوں نے فوجداری مقدمات میں سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفظ فراہم کیا تھا اور پولیس کو آئندہ مقدمات میں انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
حال ہی میں وہ اسلام آباد سے ہارنے والے پی ٹی آئی امیدوار کی انتخابی درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے، دوران سماعت فتح حاصل کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں تعصب کا الزام لگایا تھا، اور انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواستیں دائر کیں، جس نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے والے صدارتی حکم کے تحت انتخابی درخواستوں کو قائم کردہ ٹریبونل کو منتقل کر دیا۔
تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے حکم کو معطل کرتے ہوئے انتخابی درخواستوں کو جسٹس جہانگیری کو واپس بھیج دیا، ان درخواستوں کی سماعت 9 جولائی کو ہونی ہے۔