’پاکستان میں فٹبال کا دور آچکا ہے‘

چند سال پہلے اگر کوئی کہتا کہ اٹلی کی ٹیم کو 2020ء میں یورپین چیمپیئن شپ جتوانے والے کوچ روبرٹو مانچینی، اسلام آباد میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کوالیفائرز میں پاکستان کے خلاف میچ میں سعودی عرب کی فٹبال کوچنگ کریں گے جبکہ اس موقع پر ان کے ساتھ ہسپانوی کلب بارسلونا کے لیجنڈ کھلاڑی یایا ٹورے بھی موجود ہوں گے تو اس بات کو مذاق میں لیا جاتا۔

لیکن حقیقت کبھی کبھی افسانوں پر بھی بازی لے جاتی ہے اور گزشتہ ہفتے جمعرات کی رات دارالحکومت اسلام آباد میں ہم نے دیکھا کہ پاکستانی شاہین، فیفا ورلڈ کپ کوالیفائرز کے دوسرے راؤنڈ میں گرین فیلکنز (جوکہ سعودی عرب کی فٹبال ٹیم کو کہا جاتا ہے) کے مدمقابل آئے۔

2023ء تک فیفا ورلڈ کپ کوالیفائرز میں پاکستان کا ریکارڈ انتہائی خراب رہا جہاں وہ 1989ء کے بعد سے کوالیفائرز کے دوسرے مرحلے تک کبھی رسائی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان نے 1989ء سے 32 میچز کھیلے جن میں سے 28 میں اسے شکست کا سامنا رہا جبکہ 4 میچز بنا کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔

یہ سب نئے انگریز باس اسٹیفن کانسٹینٹائن کے آنے سے بدل گیا جنہوں نے قومی ٹیم کے ساتھ وقت تو بہت کم گزارا لیکن کمبوڈیا کے خلاف پاکستان ٹیم کو کامیابی دلوانے میں ان کا اہم کردار رہا۔ یہ وہی کمبوڈیا کی ٹیم تھی جس نے 2019ء کے کوالیفائرز میں پاکستان کی اگلے مرحلے میں رسائی کے امکانات ختم کئے تھے۔

’پاکستان میں فٹبال کا دور آچکا ہے‘

 

تو ہماری قومی ٹیم جس نے پہلی بار دوسرے مرحلے میں رسائی حاصل کی، اس کے لیے یہ ایسے حالات تھے جن سے وہ کچھ خاص واقف نہیں تھے، ایسے میں دوسرے مرحلے کے گروپ کا اعلان ہوا تو پاکستان نے خود کو ایسے گروپ میں پایا کہ جس میں سعودی عرب (جو 2022ء قطر ورلڈ کپ میں لیونل میسی کی ارجنٹینا کو اپ سیٹ شکست دے کر خوب مقبول ہوئی)، ایشیا کپ کا فائنل کھیلنے والی اردن کی فٹبال ٹیم اور ایشیا کپ کی کوارٹر فائنل کھیلنے والے ٹیم تاجکستان، شاہینوں کی حریف تھیں۔

گروپ دیکھنے کے بعد کسی کو امید نہیں تھی کہ پاکستان کوئی میچ جیت پائے گا اور ہوا بھی یہی لیکن قومی ٹیم نے اپنے میچز میں حریف ٹیموں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ یہ شروع ہوا سعودی عرب کے ساتھ اوے میچ میں جہاں پاکستانی فٹبال ٹیم نے بھرپور مقابلہ کیا۔ اس میچ میں پاکستان ٹیم کے کپتان عیسیٰ سلیمان (جوکہ آذربائیجان کے کلب سمگائیت کے لیے بھی کھیلتے ہیں) انجری کے باعث شرکت نہیں کرپائے لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا اور آخری دو گولز اضافی وقت میں کھائے اور یوں مقابلہ 0-4 سے سعودی عرب نے جیتا۔

مزید 9 ماحولیاتی نمونوں میں پولیو کی تصدیق، تعداد 185 ہوگئی

 

پھر تاجکستان ہمارے ملک کھیلنے آئی تو پہلے لیگ میں صورتحال تبدیل تھی۔ معطلی کی وجہ سے راؤ عمر حیات (جو واپڈا کے لیے کھیلتے ہیں) اور شیخ دوست (واپڈا) پلیئنگ الیون میں جگہ نہیں بنا پائے اور عمر حیات کی جگہ محب اللہ (کراچی یونائیٹڈ ایف سی) کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس میچ میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان نے فیفا ورلڈ کپ کوالیفائرز کے دوسرے راؤنڈ کا اپنا پہلا گول اسکور کیا۔ یہ راحس نبی (ڈیجینس مورفو ایف سی) کا ایک لانگ رینج گول تھا لیکن پھر بھی اس میچ میں قومی ٹیم پر تاجکستان کی ٹیم حاوی رہی اور اسے 1-6 سے جیت حاصل ہوئی۔

پاکستان ٹیم جس نے پہلی بار دوسرے مرحلے میں رسائی حاصل کی، اس مرحلے میں ہونے والے مقابلے اس کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوئے جنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ابھی اس معیار کے مقابلوں کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس کے بعد رمضان کے مہینے میں اردن کی ٹیم میچ کھیلنے اسلام آباد آئی تو پاکستان ٹیم نے حوصلہ افزا کھیل کا مظاہرہ کیا۔ مشکلات کے باوجود پاکستان نے اردن کے اسکور کو 0-3 تک محدود رکھا۔ اس میچ میں اردن کے موسیٰ التماری نے ہیٹ ٹرک اسکور کی اور شاید وہ ایک اور گول اسکور کرتے لیکن پاکستان کے گول کیپر یوسف بٹ نے ان کی پینلٹی روک لی۔

پھر اردن کے ساتھ دوسرا لیگ اردن میں کھیلا گیا، یہ میچ پاکستان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ دوسری لیگ میں ہمارے سینٹر بیک کھلاڑی عبداللہ اقبال معطلی کی وجہ سے شرکت نہیں کرپائے۔ قومی ٹیم کے لیے اردن کے اٹیک کا مقابلہ کرنا ناممکن ثابت ہوا اور اردن کے دارالحکومت عمان میں کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستان کو 0-7 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن تمام تر شکستوں کے باوجود یہ نوجوان پاکستان ٹیم کے لیے ایک اہم سنگ میل تھا کہ جس میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کی اوسط عمر ہی 23.1 سال ہے اور وہ آئندہ 7 سے 8 سالوں تک پاکستان ٹیم کے لیے فٹبال کھیل سکتے ہیں۔ کوچ اسٹیفن کانسٹنٹائن نے انہیں ایک شاندار یونٹ میں تبدیل کرنے کا بہترین کام کیا ہے جس کی وجہ سے آج ہماری ٹیم اس وقت ایشیائی فٹبال کی بڑی ٹیموں کا مقابلہ کر رہی ہے۔

کپتان عیسیٰ سلیمان جن کا عبداللہ اقبال کے ساتھ سینٹر بیک میں اچھا کومبینشن بنتا ہے اور اسی کی وجہ سے کمبوڈیا اور اردن کے خلاف اپنے ہوم میچز میں پاکستان نے اچھی کارکردگی دکھائی، عیسیٰ سلیمان کی عدم شرکت کے باوجود پاکستان کو سعودی عرب زیادہ بڑے مارجن سے شکست نہیں ہوئی۔

اگر گول کیپر یوسف بٹ اور عبداللہ اقبال کے درمیان گڑ بڑ نہ ہوتی تو اسکور 0-2 ہوتا جوکہ وہی اسکور ہوتا جس سے سعودی عرب نے 2022ء کے ورلڈ کپ میں ارجنٹینا کو ہرایا تھا۔ یہ فکرمند ہونے کی بات نہیں تھی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فیفا رینکنگ کا فرق 142 ہے۔

فی الحال گمان ہوتا ہے کہ فٹبال ٹیم کے لیے 2022ء میں شروع ہونے والی تعمیر نو کا عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ متعدد کھیلوں اور مقابلوں سے محروم رہنے کے بعد قومی ٹیم آہستہ آہستہ ایک ٹیم کی صورت میں آنے لگی ہے لیکن کامیابی کے لیے تسلسل انتہائی ضروری ہے۔

عالمگیر (واپڈا)، راؤ عمر حیات، شائق دوست، عدیل یونس (پوپو ایف سی) اور فرید اللہ (مسلم ایف سی) جیسے اپنے ملک میں فٹبال سیکھ کر کھیلنے والے لڑکے کوچ اسٹیفن کے ماتحت ٹیم کا حصہ بن چکے ہیں جہاں وہ باقاعدگی سے فٹبال کھیل رہے ہیں۔ ان لڑکوں نے پاکستان پریمیئر لیگ نہ کھیلنے کے باوجود (جوکہ سیاسی مسائل کی وجہ سے منظم نہیں ہوسکی) ٹیم کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی اور ایشیا کی اشرافیہ سمجھی جانے والی فٹبال ٹیموں کے خلاف متاثر کن کھیل پیش کرنے میں کامیاب رہے۔

اس کے علاوہ یورپ کے کلبز کے لیے کھیلنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں شامل کرنے اور ان پر بھروسہ کرنے کے معاملے میں بھی کوچ اسٹیفن کامیاب رہے جن میں اوتس خان (گرمزبی ٹاؤن ایف سی)، عمران کیانی (وائٹ ہاک ایف سی)، میکیل عبداللہ (مینسفیلڈ ٹاؤن ایف سی)، محمد فضل (نارڈک یونائیٹڈ ایف کے) اور ہارون حامد (سینٹ البانس سٹی ایف سی) جیسے یورپ میں فٹبال کھیلنے والے کھلاڑی شامل ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے کھیل کے معیار کو بہتر بنانے میں اپنے تجربے کا استعمال کیا۔

یہ ٹیم ابھی بن رہی ہے اور مثبت نتائج دینے سے پہلے اسے ایک یونٹ کے طور پر زیادہ نمائشی میچز کھیلنے کی ضرورت ہوگی لیکن یہ آثار تو واضح ہیں کہ پاکستان میں فٹبال کا دور آ چکا ہے۔

دنیائے فٹبال کے نامور ممالک گروپ میں ہونے کے باوجود 20 ہزار سے زیادہ شائقین نے اسلام آباد میں پاکستان اور سعودی عرب کا میچ دیکھا جبکہ اس سے پہلے کسی بھی گروپ جی میچ میں شائقین کی اتنی بڑی تعداد میچ دیکھنے اسٹیڈیم نہیں آئی حالانکہ سعودی عرب، اردن اور تاجکستان میں تو فٹبال کافی پسند کیا جاتا ہے۔

گزشتہ تین میچز میں پاکستانی شائقین کی اوسط حاضری 16 ہزار سے زائد رہی (جناح اسٹیڈیم میں لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے دوپہر میں دو میچ کھیلے جانے کے باوجود) اور اس دوران شائقین نے ایک شاندار ماحول بنایا اور ٹیم کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، بالخصوص جب سعودی عرب کی ٹیم پاکستان میچ کھیلنے آئی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان فٹبال سے محبت کرتا ہے لیکن اب تعداد بہت واضح ہے یہاں تک کہ تجربہ کار اور ناقدین بھی معترف ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان اگر پاکستان فٹبال فیڈریشن میں اپنے سیاسی معاملات کو ترتیب دینے میں کامیاب رہتا ہے اور کوچ اسٹیفن کانسٹینٹائن کے ساتھ طویل مدتی کام جاری رکھتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ انگریز باس 2027ء کے ایشیا کپ میں کوالیفائی کروانے کے لیے پاکستان ٹیم کی مضبوط قیادت کرسکتا ہے۔

16 / 100

One thought on “’پاکستان میں فٹبال کا دور آچکا ہے‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!