امریکا اور اسرائیل ہتھیاروں اور بارودی مواد کی پابندی سے متعلق ایک دوسرے پر جوابی وار کررہے ہیں، اس دوران یہ جاننا بھی اہم ہے کہ کون سے ممالک اسرائیل کو کس قسم کے ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے کچھ پرانی خبروں کا جائزہ لیں تو صیہونی فوج کی جانب سے رفح پر حملے کی دھمکی کے بعد امریکا نے اسرائیل کو بارودی مواد کی کھیپ روک دی تھی جو اسرائیلی فورسز غزہ میں جنگ کے لیے استعمال کیے جارہے تھے، جس کے نتیجے میں 7 اکتوبر سے اب تک 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
جس کے بعد 8 مئی کو امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلی بار اعلانیہ خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کے شہر رفح پر بڑا حملہ کیا تو وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں گے۔
آئی کیوب قمر کی کامیاب لانچنگ کے بعد ایک اور سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی تیاری
اسرائیل طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کا قریبی اتحادی اور سب سے زیادہ اسلحہ حاصل کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد جرمنی، اٹلی، برطانیہ، کینیڈا اور کئی دوسرے ملک بھی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والوں میں شامل ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی جنگ شروع ہونے کے بعد اس سال کینیڈا اور نیدرلینڈز نے یہ کہتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک ہے کہ غزہ کی پٹی میں ان کے ہتھیاروں کے استعمال سے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ اسرائیل دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جسے امریکا نے اپنے جدید ترین جنگی طیارے ایف 35 فروخت کیے ہیں۔
امریکا
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی حکام کے مطابق اسرائیل کو جن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی گئی ہے، ان میں 1800 سے 2000 پاؤنڈز اور 1700 سے 500 پاؤنڈز کے بم شامل ہیں جن کی مالیت کروڑوں ڈالر ہے۔
تاہم اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار بدستور پائپ لائن میں ہیں جن میں ٹینکوں کے گولہ بارود شامل ہیں۔
سن 2016 میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق 10 سالہ سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکا 2018 سے 2028 کی مدت میں اسرائیل کو 38 ارب ڈالر کی فوجی امداد، امریکی فوجی آلات کی خرید کے لیے 33 ارب ڈالر کی گرانٹ اور میزائل ڈیفنس سسٹم کے لیے 5 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے 2023 کے دوران اسرائیل نے اپنی 69 فیصد فوجی خریداری امریکا سے کی ہے۔
جرمنی
امریکا کے بعد جرمنی وہ دوسرا ملک ہے جو اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی سازو سامان فراہم کرتا ہے۔
جرمنی نے 2023 میں اسرائیل کو 35 کروڑ ڈالرز سے زیادہ مالیت کے ہتھیار دیے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تھے۔
ان میں سے زیادہ تر ہتھیار 7 اکتوبر کی جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل کی درخواست پر فراہم کیے گئے۔
تاہم جیسے ہی غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر بین الاقوامی تنقید میں اضافہ ہوا تو جرمن حکومت نے اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی برآمدات کم کردیں۔
اٹلی
اٹلی اسرائیل کو فوجی ہتھیار فراہم کرنے والا تیسرا اہم ملک ہے، اٹلی کی وزارت خارجہ کے ذرائع نے 9 مئی کو تصدیق کی کہ اٹلی نے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے نئی برآمدات کی منظوری روک دی ہے۔
اطالوی قانون کے تحت ان ممالک کو ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی ہے جو جنگ لڑ رہے ہیں اور جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مارچ میں وزیر دفاع گیڈو کروسیٹو نے کہا تھا کہ اسرائیل کو وہ ہتھیار برآمد کیے جا رہے ہیں جن کے معاہدوں پر پہلے سے دستخط ہو چکے ہیں لیکن ہتھیار یہ یقینی بنانے کے بعد بھیجے جا رہے ہیں کہ ان کا استعمال غزہ کے شہریوں کے خلاف نہیں ہو گا۔
صرف دسمبر میں اٹلی نے اسرائیل کو ایک ارب 30 کروڑ یورو مالیت کا اسلحہ بھیجا، جو 2022 میں اسی مہینے کے مقابلے 3 گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اٹلی نے 23-2019میں اسرائیل کے درآمد شدہ ہتھیاروں کا 0.9 فیصد فراہم کیا، جس میں ہیلی کاپٹر اور بحری توپ خانے شامل ہیں۔
اطالوی قانون کے تحت ان ممالک کو ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی ہے جو جنگ لڑ رہے ہیں اور جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
برطانیہ
برطانیہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں شامل نہیں ہے۔
امریکا کے مقابلے برطانیہ کی حکومت اسرائیل کو براہ راست ہتھیار نہیں دیتی بلکہ کمپنیوں کو لائسنس دیتی ہے کہ وہ امریکی سپلائی چینز، جیسے ایف – 35 جیٹ طیاروں کے پرزے فروخت کریں۔
گزشتہ سال برطانیہ نے اسرائیل کو سوا پانچ کروڑ ڈالر مالیت کا دفاعی سازوسامان فروخت کرنے کے لیے لائسنس دیے تھے، جو زیادہ تر گولہ بارود، ڈرونز، طیاروں اور ہیلی کاپٹر کے پروزوں سے متعلق تھے۔