کراچی (تشکر نیوز) برطانوی خبر رساں ادارہ بی بی سی (نیوز) اردو حقائق کی عکاسی کرنے والے ادارہ کی حیثیت سے اپنی شناخت کو عوام کی نظر میں مسلسل مشکوک کرنے اور بغیر تصدیق خبروں کی اشاعت کی دوڑ میں شامل ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کے حالات کو ایک مخصوص انداز اور اپنی مرضی کے اینگل سے پیش کرنے کے حوالے سے مشہوراس ادارے کی جانب سے پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے چھور میں کینٹ ایریا کے باہر پیش آنے والے کم عمر لڑکے کے قتل اور لاش کی برآمدگی کے واقعے کو بھی مخصوص اینگل اور بیانیہ کی آڑ میں نفرت انگیز طور پر ایک خبر کی صورت شائع کیا گیا اور صحافت کے بنیادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقائق سے ہٹ کر رپورٹنگ کی گئی۔ شائع شدہ خبر کو رپورٹ کرنے والے بی بی سی کے نمائندے کے مطابق واقعے میں ملوث اہلکار کی گرفتاری نہیں ہوسکی جبکہ یہ سراسر غلط اور گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی سے متعلق اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ماضی سے جاری سلسلہ میں ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کے سوا کچھ نہیں۔
چھور میں کم عمر لڑکے کا قتل بی بی سی حقائق کے منافی رپورٹنگ سے باز نہ آیا
پولیس اور اہلیخانہ کی نشاندہی کے بعد واقعے میں ملوث اہلکار کو آدھے گھنٹے کے اندر گرفتار کرکے ضابطہ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جاچکا ہے اس کے علاوہ رپورٹ میں آئی ایس پی آر سے رابطے کا بیانیہ بھی دیا گیا جب کہ معلوم ہوا ہے کہ BBC نےمتعلقہ حکام سے اس معاملے پر کوئی رابطہ نہیں کیا مزید براں تضادات سے پھرپور اس رپورٹ کے ابتدائی حصے میں لکھا گیا کہ اہلکار کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن رپورٹ کے آخر میں یہ بھی لکھا گیا کہ مقتول کے اہلخانہ کے مطابق اہلکار کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے
بی بی سی کی اس قسم کی رپورٹنگ ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھانے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اپنا اعتماد اور وقار کھونے کے مترادف ہے