سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے بینچز کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔ میڈیا رپورٹس سپریم کورٹ کی 3 رکنی کمیٹی کے ممبر جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام لکھے گئے خط میں انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اور جسٹس مظاہر نقوی کیلئے تشکیل دئیے گئے بینچز پر اعتراضات اٹھائے۔
اپنے خط میں جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ 7 دسمبر کو 4 بجے چیف جسٹس پاکستان کے افس میں اجلاس ہوا، اجلاس کا ایجنڈہ مجھے متعدد مرتبہ رابطوں کے بعد دیا گیا، سویلنز کے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے مقدمے میں مجھے بتایا گیا کہ 7 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے گا، پسند ناپسند کے تاثر سے بچنے کیلئے میرا موقف تھا کہ تمام سینئر ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے تاہم چیف جسٹس نے میری تجویز کو ججز کی آمادگی کے ساتھ مشروط کردیا اور اسی اصول پر جلد سماعت کی درخواستوں ہر بھی اتفاق کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے خط میں کہا ہے کہ ملٹری کورٹس کیس میں 7 رکنی بنچ کا فیصلہ ہوا مگر 6 رکنی بنا دیا گیا، اسی طرح 3 رکنی خصوصی بینچ کی تشکیل میں بھی سینیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا گیا، میٹنگ منٹس بھی غلط جاری کیے گئے، دو خصوصی بنچوں کی تشکیل کا معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے سامنے نہ آیا نہ کمیٹی میں تشکیل ہوئی، سینئر ججز کے بینچ میں شامل نہ ہونے کے حوالے سے میں مکمل اندھیرے میں ہوں، ان دو خصوصی بینچز کی تشکیل کو کمیٹی میں رکھا جاتا تو میں اپنی رائے دیتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے خط میں لکھا ہے کہ جمعہ کے روز 2 مرتبہ کالز کرنے کے بعد بتایا گیا کہ فائل چیف جسٹس کے چیمبر میں منظوری کیلئے گئی ہے، انتظار کرنے کے باجود 6 بج کر 30 منٹ پر کال کرنے پر بتایا گیا کہ رجسٹرار صاحبہ جا چکی ہیں، چوتھی اور پانچویں کمیٹی اجلاس کے منٹس نہ تو بھجوائے گئے نہ ہی دستخط لیے گئے، ان منٹس کو بغیر میری منظوری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا۔