اسرائیل اور ایران کے درمیان دشمنی اور کشیدگی کی تاریخ 1979کے بعد سے ہمیشہ سرخیوں اور بین الاقوامی منظر نامے پر تبصروں اور تجزیوں کی زد میں رہی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اسرائیل کا دنیا میں سب سے بڑا دشمن ایران کو ہی تصور کیا جاتا ہے ان ہی وجوہات کے باعث عالمی قوتوں کا حصہ ریاستوں کی بھر پور تک و دو کے نتیجے میں ایران ہمیشہ بین الاقوامی پابندیوں میں گھرا رہا ہے لیکن قبلہ اول کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی منظر نامے پر یہ بات واضح ہے کہ ایران اور اسرائیل کے حالات میں رہتی دنیا تک کشیدگی کم نہیں ہو سکتی،مذہبی اعتبار سے ممتاز اسکالر ڈاکٹر اسرار نے بھی اپنے ایک بیان میں اسرائیل کے خلاف ایران کی بھر پور مزاحمت کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ، پوری دنیا میں ایرانیوں کے دلوں میں اسرائیل کی مسلسل نفرت کی مثال یہی ہے کہ اس قوم نے اسرائیل کے حامی اپنے ہی ملک کے
بادشاہ شاہ ایران کو بھی سولی پر چڑھا دیا تھا
دوستوں حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جارحیت اور اس جنگی جنون کو خطے کے دوسرے مخالفین تک پھیلانے کے عزائم واضح دکھائی دیئے جب یکم اپریل کو شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر کمانڈر اور چھ دیگر افسران مارے گئے تھے۔ تہران نے اس حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے اس کارروائی کا جواب دینے کی دھمکی دی تھی،
جس کے بعد قونصل خانہ برلن میں قائم تھنک ٹینک ”سینٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ گلوبل آرڈر“ کے ڈائریکٹر اور تجزیہ کار علی فتح اللہ نژاد کے بقول ایرانی حکومت کے کچھ حامی غزہ جنگ کے تناظر میں اسرائیل پر حملہ کرنے یا خود ایران پر حملوں کا بدلہ لینے میں ایران کی طویل ہچکچاہٹ سے ناراض تھے
نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دو ہفتے بعد، 13 اپریل کو، ایران کے پاسداران انقلاب کی جانب سے اسرائیل میں اہداف پر ڈرون اور میزائل داغے دیئے،جس کے بعد عالمی دنیا کو عالمی جنگ کے اثرات واضح طور پر دکھائی دینے لگے تاہم اسرائیل کی جانب سے ایران کو اس حملے کا جواب دینے کے لیے بھی سر جوڑے گئے لیکن اسرائیل میں ہونے والے تین گھنٹے طویل اس اجلاس میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا
اس تمام تر معاملے پر ایران کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات ہونے کی بنا پر پاکستان کا موقف بھی اہم سمجھا جانے لگا اسی تناظر میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی روشنی میں اپنے حالیہ سفارتی بیانات میں پاکستان نے علاقائی تنازعات پر ایک مضبوط موقف کا اظہار کیا ہے۔ یکم اپریل سے شروع ہونے والے واقعات کے تسلسل میں پاکستان نے کشیدگی ختم کرنے اور بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت پر زور دیا اور اسرائیلی اقدامات کی واضح اور پرزور مذمت کی ہے۔ 2 اپریل کو، پاکستان نے شام کے شہر دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول اور غیر ذمہ دارانہ عمل قرار دیا۔ ایک وسیع بیانیے کے طور پر مذمت محض ایک ردعمل نہیں بلکہ انتہائی غیر مستحکم حالات میں پاکستان کو امن اور استحکام کے لیے ایک آواز کے وکیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) سے سفارتی تنصیبات پر حملوں سمیت اسرائیلی مہم جوئی اور اپنے پڑوسیوں کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ ان تنازعات کو حل کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی پر پاکستان کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان نے اپنے موقف میں پرامن ہمسائیگی کو فروغ دینے اور پورے خطے کو لپیٹ میں لینے والے اختلافات کو ختم پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے اپنے موقف میں کسی بھی ایسی کارروائی کی مذمت کی ہے جو کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنے اور اس میں ملوث تمام فریقین سے تحمل کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اور غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے، پاکستان نے خطے میں بڑھتے ہوئے تضاد کو روکنے کے لیے مثبت بین الاقوامی مداخلت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ بیرونی خطرات کے پیش نظر پاکستان مضبوط دفاعی اور حفاظتی آلات کی اہمیت پر یقین رکھتا ہے۔ متعدد بیرونی خطرات بشمول بھارت کی تخریب کاری اور بیرونی طور پر اسپانسر شدہ دہشت گرد تنظیموں کے فعال ہونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط دفاعی حکمت عملی کی ضرورت پر یقین رکھتا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل اور بھارت کے درمیان گٹھ جوڑ کو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والا عنصر سمجھا جاتا ہے
واضح رہے کہ 8اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد سے بھارت نے اسرائیل کی کھلے دل سے حمایت کی ہے اور حتیٰ کہ بھارت اقوام متحدہ میں انسانی بنیادوں پر عارضی جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی قرار داد سے بھی غیر حاضر رہا، اس اتحاد کو علاقائی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، جس کے لیے پاکستان کو ایک چوکس اور فعال حکمت عملی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جغرافیائی سیاسی حالات اور جاری تنازعات کا حل نکالنے کے لیے پاکستان اتحاد اور رویوں میں لچک کا مطالبہ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور سیاسی شخصیات پر زور دیتا ہے کہ وہ تفرقہ انگیز بیان بازی سے گریز کریں اور قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر توجہ مرکوز کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قوم اس مشکل وقت میں اتحاد یکجہتی اور تنظیم کا مظاہرہ کرے۔