مقبول باقر یا وائوڈا اگلا گورنر کون؟

ن لیگ کو ایک اور سبکی کاسامنا، اپنے صوبائی صدر بشیر میمن کو گورنر سندھ نہ بناسکے زرداری کی "ناں” کے سامنے ن لیگ ڈھیر ہوگئی اس طرح جب سے شہباز دوبارہ وزیر اعظم بنے ہیں پی پی کے ہاتھوں مسلسل پسپائی کاسامناہے تبھی سیانے کہتے ہیں سیاست شطرنج کا کھیل ہے اور آصف زرداری شطرنج کی بساط کے زبردست کھلاڑی ہیں انہوں نے نمائشی صحی ملک کاسب سے بڑا عہدہ لے کر اور اپنی جماعت کو حکومت سے الگ رکھ کر ن لیگ کو ایک بار پھر مکڑی کے ایسے جالے میں جکڑ لیاہے جس سے اب اسے نہ فرار ممکن ہے نہ نجات حکومت سے فاصلہ رکھ کر وہ ہر وہ مطالبہ منوانے کی حیثیت میں کامران ہیں

اور آنے والے دنوں میں معاشی بدحالی کے سبب کچھ مشکل فیصلوں کا سارا بار ن لیگ کو اکیلے اٹھانا پڑے گا اور عوامی غیض و غضب کانشانہ تنہا شہباز حکومت ہوگی نواز شریف کی یہ بات اگر شہباز کی سمجھ میں آجاتی تو آج اسے اس مشکل صورت حال کاسامنا نہ کرنا پڑتا اب زرداری دھیرے دھیرے ن لیگ کے گرد شکنجہ کسنا شروع ہوگئے ہیں وہ این ایف سی ایوارڈ کی ممکنہ تجدید سے نہ صرف انکاری ہوگئے ہیں بلکہ سندھ کے لئے مرکز سے الٹا مزید فنڈنگ پر دبائو بڑھارہے ہیں جبکہ زرداری نے اپنے جادوئی اثرو رسوخ سے اسٹبلشمنٹ کو بھی اگر اپنا ہمنوا نہیں تو غیر جانبداری پر آمادہ کرلیا ہے جس سے پہلے سے کمزور شہباز حکومت عوام و خواص میں اپنی ساکھ تیزی سے گنوارہی ہے اس کے قربانی دینے والے مجنوں دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہوکر اپنی ہی لیڈر شپ پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں

جبکہ دودھ پینے والے مجنوں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں یہ اس جماعت کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں مگر شہباز کے شوق شیروانی نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیاہے کہ امکانات یہی ہیں کہ بہت جلد وہ ن لیگ کے "گورباچوف” بن کر تاریخ کے کوڑے دان کا ایندھن بن جائے گے تاہم اس ن لیگ کے غبارے میں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز کسی حد تک ہوا بھرنے میں کامیاب ہورہی ہیں اور ان کی چند ماہ کی کار کردگی دیکھ کر سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ شاید ان کے عوامی فلاحی منصوبوں کی بدولت پنجاب میں کسی حد تک یہ پارٹی اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی باقی تین صوبوں میں پہلے ہی اس کی ارتھی دفنائی جاچکی مزید شہباز کاشوق حکمرانی خلاص کردے گا پپلز پارٹی سندھ کے عوامی گورنر کامران ٹیسوری کے فلاحی منصوبوں سے خوف زدہ ہوکر ان کی جلد چھٹی کروانا چاہتی ہے

جبکہ ن لیگ ایم کیو ایم سے دیرینہ پارٹنر شپ کی خواہش کے پیش نظر سندھ کا سب سے بڑا منصب ان کے حوالے کرنا چاہتی تھی مگر پی پی کے دبائو پر جب اس نے اپنے صوبائی صدر بشیر میمن کانام سندھ کی راج دھانی کے لئے پیش کیا تو زرداری صاحب نے اسے ویٹو کردیا کیونکہ آصف زرداری کی بشیر میمن سے رشتہ داری کے باوجود کبھی ان کی آپس میں بنی نہیں اور یہ کشیدگی عمران حکومت میں اس وقت پورے عروج پر پہنچ گئی تھی جب بشیر میمن نے ڈی جی ایف آئی اے کی حیثیت سے اس وقت کے وزیر اعظم کے حکم پر آصف زرداری،محترمہ فریال تالپور اور پارٹی کی دیگر قیادت کے خلاف کاروائیاں کیں جس پر زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کی حکومت بننے اور بشیر میمن کی ریٹائر منٹ کے ساتھ ہی ان کے اور ان کے خاندان کی زمینوں پر قبضے کروادیئے اور انہیں سندھ حکومت کے ذریعے ہراساں کیا تھا اس معاملے میں شہباز شریف نے جو اس وقت وزیر اعظم تھے ذاتی حیثیت میں کردار ادا کرکے بشیر میمن کو تحفظ فراہم کیا اور زرداری صاحب کو ان کے جارحانہ کردار سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا شہباز کے اس کردار سے متاثر ہوکر بشیر میمن ان کی پارٹی میں شامل ہوے تاہم گورنر کی حیثیت سے ان کی تقرری سے دست برداری پر وہ خاصے مایوس نظر آتے ہیں

ادھر ن لیگ نے اس پسپائی کے بعد گورنر شپ کااپنا کوٹہ ایم کیو ایم کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم اسٹبلشمنٹ کی مشترکہ پسند مقبول باقر، خوش بخت شجاعت اور وائوڈا سمیت دو مزید نام ہیں جبکہ اقتدار کے تمام ایوانوں میں موجودہ گورنر ٹیسوری کی فراغت کا حتمی فیصلہ کیا جاچکا ہے ان کی رخصتی سے ان کے شروع کیے ہوے عوامی فلاحی منصوبوں کو زبردست دھچکا پہنچے گا تاہم ذرائع کاکہناہے کہ ان چھٹی کے فیصلے میں بھی ان کی ناپختہ کاری اور اپنے منصب کے برعکس سستی شہرت کے حامل اقدامات اور منتخب صوبائی حکومت پر مسلسل تنقید وجہ بنے ہیں در اصل انہیں تجربہ کار اور سنجیدہ مشیر نہ مل سکے اور وقتی فوائد کے ان کے فیصلے انہیں لے ڈوبے تاہم ان کے بعض منصوبے عرصہ دراز تک یاد رکھے جائیں گے انتہائی مستعد اور گرم جوش گورنر ٹیسوری کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنی ہی جماعت کی اکثریت کا اعتماد بھی کھو بیٹھے انہوں نے اپنے مشیروں کے ایماء پر اپنی فیس بک اور سوشل میڈیا ڈی پی پر اپنے قائدین کی بجائے صدر زرداری کے ساتھ تصویر چسپاں کی جبکہ ایم کیو ایم میں ان کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ پی پی کی طرف سے انہیں بتایا گیا کہ عوامی مقامات پر کراچی کے حقوق کے نعروں کے برعکس وہ تین بار آصف زرداری سے ملے اور ایک بار بھی انہوں نے کراچی کے مسائل پر بات نہ کی بلکہ ان سمیت وزیر اعلی سے ملاقاتوں کے مواقع پر بھی وہ ہمیشہ اپنی ذاتی زمینوں اور پلاٹوں کے مسائل ہی اٹھاتے رہے

چہ جائکہ گورنر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم ان کے سیاسی مخالفین اور کچھ ایم کیو ایم ہی کے ان سے ناراص رہنمائوں کاکہناہے کہ ان کی تبدیلی کے فیصلے کے پس پشت ایک بڑی وجہ ان کے خلاف طاقت ور مسلم پڑوسی ملک دبئی میں ان کے داخلہ پر پابندی بھی ہے جہاں ان کے خلاف فوج داری مقدمات درج ہیں اور وہاں کی عدالتیں ٹیسوری کے خلاف فیصلے دے چکی ہیں اس سلسلہ میں ٹیسوری کے گورنر بننے کے بعد صوبائی اور وفاقی سطح پر بھی متعدد بار دبئی حکومت سے نظرثانی کی درخواستیں کی گئیں مگر ہر بار حکومت پاکستان کو سبکی کاسامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ وزارت خارجہ کی سطح پر کی گئی کوششیں بھی بارآور نہ ہوئیں حکومت پاکستان کے لئے یہ انتہائی شرمندگی کا مقام رہا کہ ان کے ایک بڑے صوبے کا گورنر دبئی میں داخل نہیں ہوسکتا اوران پر جعل سازی کے مقدمات کے سبب وہ وہاں کے قانون میں ایک مفرور شخص ہیں تاہم پی پی کے ذرائع کاکہناہے کہ ان کی تبدیلی سے یہ بھی ایک بڑا مسلہ حل ہونے جارہاہے-

9 / 100

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!