مظلومیت کا ووٹ

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں انھیں 80 فی صد نشستیں ملی ہیں جو بانی پی ٹی آئی کے بیانیے کی مرہون منت ہے اور ان کی پارٹی کی جیت کا ثبوت الیکشن کمیشن کا فارم 45 ہے مگر رات کو عوام کا مینڈیٹ فارم 47 کے ذریعے چرا لیا گیا اور ہارے ہوئے لوگ جتوا دیے گئے۔

پی ٹی آئی کے اسلام آباد سے ہارنے والے ایڈووکیٹ رہنما شعیب شاہین بھی ایسا ہی دعویٰ کرتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے مطابق اس کے بانی چیئرمین کو ناحق قید میں رکھا گیا ہے، ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں اور الیکشن سے قبل دونوں میاں بیوی کو جھوٹے مقدمات میں سزائیں دلائی گئیں۔

پی ٹی آئی تسلسل کے ساتھ یہ بیانیہ پیش کررہی ہے کہ اس کے امیدواروں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی، رہنماؤں کو 9 مئی کے نام پرگرفتار کیا گیا، متعدد کو الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا اور پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان تک چھین لیا گیا، آخر میں پی ٹی آئی کے رہنما یک زبان ہوکر کہتے ہیں، یہ تمام سلوک عوام نے دیکھے اور انھوں نے بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر ظلم کا بدلہ ووٹ کی صورت میں دیا مگر مینڈیٹ چرا کر کسی اور کی حکومتیں بنوا دی گئیں۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اگر مینڈیٹ چرایا گیا تو یہ چوری کے پی کے میں کیوں نہیں ہوئی؟ کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت وہاں کیسے بنی؟ جب کہ کے پی میں مولانا فضل الرحمن کا سمدھی گورنر اور جے یو آئی کی حمایت یافتہ نگران حکومت تھی۔ پشاور سمیت متعدد شہروں کے بلدیاتی ادارے جے یو آئی کے پاس تھے تو کے پی سے جے یو آئی کا صفایا کیسے ہوا؟ پی ٹی آئی کے تمام اہم رہنما اور روپوش رہنما کیسے کامیاب ہوگئے؟ صرف شعیب شاہین اسلام آباد سے اور سلمان اکرم راجہ لاہور سے ہارے جب کہ لطیف کھوسہ زندگی میں پہلی بار لاہور سے کیسے جیت گیا؟ پی ٹی آئی اس بات پر بھی خاموش ہے کہ پنجاب سے اس کا ووٹ چوری ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، میاں جاوید لطیف، خرم دستگیر ، روحیل اصغر وغیرہ اور جہانگیر ترین و دیگر بااثر لیڈر الیکشن کیسے ہار گئے۔

پی ٹی آئی کو اگر اس کے بانی اور مظلومیت کا ووٹ ملا ہے تو 2018 میں میاں نواز شریف کو مظلومیت کا ووٹ کیوں نہیں ملا تھا؟ جو بانی پی ٹی آئی سے زیادہ مظلوم اور تین بار وزیراعظم رہے تھے جن کے دور میں ملک ایٹمی طاقت بنا۔ موٹرویز بنائی گئیں، ملک میں بہترین سڑکوں کا جال بچھایا گیا، لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی۔ ترقیاتی کام ہوئے، ریلوے بحال ہوئی اور سب سے بڑی بات کہ دنیا جانتی ہے کہ 2017 میں پہلے نواز شریف کو نااہل کرا کر انھیں اقتدار سے ہٹایا گیا۔

انھیں پاناما میں کچھ ثابت نہ ہونے پر اقامہ میں پہلے نااہل کرایا پھر ان پر مقدمات بنوائے اور نواز شریف اپنی بیٹی مریم کے ہمراہ الیکشن سے قبل پاکستان آئے اور جھوٹے مقدمات میں دونوں کو سزائیں دلوائی گئیں اور جیل میں ڈال کر عمران خان نے دونوں پر سختیاں کرائیں اور یہاں تک کہ نواز شریف کو جیل میں اپنی جاں مرگ اہلیہ سے آخری بات تک فون پر نہ کرنے دی گئی اور وہ انتقال کر گئیں۔

نواز شریف کے برعکس بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں شاہانہ سہولیات حاصل ہیں۔ حکومت نے انھیں ورزش کے لیے ایکسر سائز مشین اور رہائش کے لیے وسیع بیرکس دیں، ان کے بیٹوں سے ریگولر بنیادوں پر فون پر بات کرائی جاتی ہے اور من پسند کھانوں پر مشتمل خوراک دی جاتی ہے اور شوکت خانم اسپتال کے پسندیدہ ڈاکٹروں سے دونوں میاں بیوی کا طبی معائنہ کرایا جاتا جہاں دونوں مکمل صحت مند ہیں اور پسندیدہ ڈاکٹر ہی دونوں کے مضر صحت اشیا کھلانے کے جھوٹے بیانات کی تردید کرتے ہیں۔

نواز شریف پہلے صدر غلام اسحاق، بعد میں پرویز مشرف کے عتاب کا شکار رہے۔ سزائیں دلائی گئیں، طیارے میں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر سفر کرایا جاتا اور تیسری بار وزیر اعظم بننے کی سزائیں۔ نااہلی ان کا مقدر بنی اور چند ججز نے نواز شریف کو اپنے ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا اور بعض اعلیٰ بالاتروں نے بھی عمران خان کی محبت میں نواز شریف کا اقتدار میں جینا حرام رکھا اور اپنی دو سال کی محنت ضایع نہیں ہونے دی اور الیکشن میں انھیں بھی قید رکھا تھا۔

پی ٹی آئی کے بانی ہی نہیں ان کے رہنماؤں کو غیرمعمولیعدالتی ریلیف ملتا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس خصوصی پروٹوکول میں فوری طلب کر کے انھیں خوش آمدید کہتے۔ رات گزارنے کے لیے بہترین جگہ دلواتے اور پروٹوکول میں اسلام آباد سے لاہور بھجوایا کرتے تھے۔ یہ عدالتی سہولیات اور مراعات نواز شریف اور (ن) لیگ و پی پی کے رہنماؤں کو ملیں نہ ان کی اپیلوں پر فوری سماعتوں سے انھیں ریلیف دیا جاتا تھا۔

اس ملک میں بہترین کارکردگی کو سراہنے اور ووٹ دینے کا رواج ہی نہیں ہے البتہ بانی پی ٹی آئی، پارٹی لیڈر اور سوشل میڈیا ٹائیگرز اور ٹائیگریسس سیاسی مخالفین کی پگڑی اچھالتے رہیں، ذومعنی گفتگو کریں، پولیس پر حملے کریں، پولیس اہکاروں کو زخمی کریں، پولیس گاڑیوں کو نذر آتش کر دیں، فوجی تنصیبات پر حملہ کریں، شہدا کی بے حرمتی کریں، یہ سب کچھ جائز ہے جب کہ ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے تو ظلم ہے۔ ملزم کی زیادتیاں بھلا کر اسے مظلوم سمجھا جانے لگتا ہے اور اس کی حمایت بڑھنے لگتی ہے۔ عمران خان کو اگر مظلومیت کا ووٹ ملا تو یہ ووٹ 2018 میں نواز شریف کو بھی ملا ہوگا مگر انھیں مظلوم ہونے کے باوجود بھی ہروا دیا گیا تھا۔

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!