اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ تشکر نیوز کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اپیلوں پر سماعت کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم حامد علی شاہ، ذولفقار نقوی و دیگر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت بھی کمرہ عدالت میں موجود ہے۔ سماعت کے آغاز میں جسٹس عامر فاروق نے حامد علی سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ گئے نہیں، ہم تو سلمان صاحب کو سنتے رہے، اس پر بریرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سر میں بھی تھک گیا ہوں، آج کل میری مصروفیات زیادہ ہیں، کوئی ایک دن میرے دلائل کے لیے مختص کریں۔
بعد ازاں سلمان صفدر نے کل تک حتمی دلائل کے لیے وقت مانگ لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ جمعے کو نہیں پیر کو ایک بجے ہم آپ کو سن لیتے ہیں۔ سلمان صفدر نے اپنی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اس کیس کے سب سے اہم گواہ اسد مجید کا بیان پڑھنا چاہوں گا، پھر وکیل سلمان صفدر نے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
اسد مجید کے بیان کے مطابق کورونا کے دوران مان کی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو سے آفیشل لنچ پر ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں وزارت خارجہ کے اور بھی اہم افسران شامل تھے، اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے کمیونیکیشن حکومت کے ساتھ شئیر کرنے کا کہا گیا تھا، امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری کی زبان پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بریف کیا، ڈونلڈ کے بیان پر انہوں نے حکومت سے ڈیمارش کرنے کا کہا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) صرف سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سائفر کی کاپی واپس نہ کرنے پر تحقیقات کیوں کر رہی ہے جبکہ سائفر کی کاپی وصول کرنے والے دیگر فریقین کو ایسا ہی کرنے کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔
قبل ازیں 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعتکے دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کسی کو پتا نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہو گیا۔
واضح رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پر سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی گئی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا تھا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
اس سے ایک روز قبل (19 مارچ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔ یاد رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔ سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔ مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔ ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔