...

2013 سے 2024 کی صوبائی حکومتیں

مسلم لیگ کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں 1985کے بعد اس کی زیادہ حکومتیں بنی ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی بھی 2008 کے بعد سندھ میں مسلسل چوتھی حکومت بنی ہے تو پی ٹی آئی نے بھی خیبر پختون خوا میں 2013کے بعد اب2024میں اپنی مسلسل تیسری حکومت بنا لی ہے جہاں کبھی مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل اور اے این پی کو کبھی دوبارہ حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ خیبر پختون خوا کے عوام نے دوسری بار کسی پارٹی کو منتخب نہیں کیا تھا۔

کے پی کے میں اب تیسری بار حکومت پی ٹی آئی نے بنائی ہے۔ مگر شہباز شریف اور مراد علی شاہ کی طرح باریاں لینے کا کے پی کے میں کسی کو موقع نہیں ملا اور 2013سے2024تک اب پی ٹی آئی نے اپنا تیسرا وزیراعلیٰ منتخب کرایا ہے اور ان تینوں انتخابات میں نئے رہنماؤں کو پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ منتخب کرایا ہے جب کہ پنجاب میں شریف خاندان اور سندھ میں سیدوں کو ہی زیادہ حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں ممتاز بھٹوکے بعد غلام مصطفی جتوئی کو وزیراعلیٰ سندھ بنایا تھا مگر 1988کے بعد بے نظیر بھٹو سے آصف علی زرداری کا اپنی پارٹی میں صرف سیدوں پر ہی اعتماد رہا ہے اور قائم علی شاہ، عبداﷲ شاہ کے بعد اب مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تیسری بار بنائے گئے ہیں جب کہ جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویزکے دور تک دو سید وزیراعلیٰ غوث علی شاہ اور مظفر حسین شاہ اور باقی غیر سید میں جام صادق علی، علی محمد مہر، ارباب غلام رحیم ، آفتاب شعبان میرانی، لیاقت علی جتوئی وزرائے اعلیٰ رہے اور سندھ میں قرعہ فال زیادہ سیدوں کا ہی نکلا اور پیپلزپارٹی نے زیادہ اعتماد سیدوں پر ہی کیا۔

2013سے 2024تک ملک کے چاروں صوبوں میں زیادہ تر حکومت پنجاب میں شریفوں، سندھ میں مراد علی شاہ کی رہی اور کے پی کے اور بلوچستان میں کبھی کوئی دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بن سکا مگر بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں جام خاندان کے تین وزیراعلیٰ جام غلام قادر ان کے بیٹے جام یوسف پھر ان کے بیٹے جام کمال اور عطاء اﷲ مینگل کے بعد ان کے صاحبزادے اختر مینگل وزیراعلیٰ رہے صرف پنجاب میں نواز شریف پھر ان کے بھائی شہباز شریف پھر ان کے بیٹے حمزہ شہباز اور اب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز وزیراعلیٰ منتخب ہوئی ہیں۔

سندھ میں مراد علی شاہ اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ، مریم نواز اپنے والد اور ن لیگی قائد نواز شریف کے اور علی امین گنڈا پور اپنے بانی عمران خان کے قریب ہیں جب کہ بلوچستان میں پہلی بار بنائے گئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی جو چند ماہ قبل ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے وہ کم مدت میں صوبائی وزیر بلوچستان پھر نگراں وفاقی وزیر داخلہ اور جلد ہی وزیراعلیٰ بنا دیے گئے ہیں اور اب چاروں وزرائے اعلیٰ میں کارکردگی دکھانے کا مقابلہ ہوگا مگر وزیراعلیٰ سندھ تیسری بار اور باقی مریم نواز، علی امین گنڈا پور اور سرفراز بگٹی پہلی بار وزرائے اعلیٰ کے عہدوں پر منتخب ہوئے ہیں۔

2013کے بعد اب 2024 میں چاروں صوبوں کی صورتحال اس طرح مختلف ہے کہ 2013 میں پنجاب کے ساتھ وفاق میں ن لیگ کی حکومت تھی اور اب 2024 میں بھی وفاق میں نواز شریف وزیراعظم اور کے پی میں پی ٹی آئی کے پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے جنھوں نے عمران خان کے کہنے پر 5 سال تک وفاق سے بھرپور محاذ آرائی جاری رکھی اور پہلی بار کے پی حکومت لانگ مارچ کے ذریعے وفاق پر حملہ آور ہوئی تھی۔

2018 میں پی ٹی آئی بالاتروں کی مدد سے وفاق کے علاوہ پنجاب اور کے پی میں بھی پی ٹی آئی کے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ تھے جہاں کارکردگی کے بجائے مخالفوں سے سیاسی انتقام لینے کا مقابلہ چلا اور کرپشن اور بدترین گڈ گورنس کے ریکارڈ قائم ہوئے جس کی وجہ سے عمران خان کو ہٹایاگیا اور چند ماہ بعد انھوں نے مستقبل کے سیاسی مفاد کے لیے خود اسمبلیاں تڑوا کر پنجاب اور کے پی میں اپنی حکومتیں ختم کرائیں اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر ملک بھر میں احتجاج جاری رکھا جس کا پی ٹی آئی کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا۔

2024میں پھر پی ٹی آئی کو کے پی کے میں اپنی حکومت بنانے کا موقع مل گیا ہے مگر کے پی کے، کے وزیراعلیٰ نے نئے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کا بائیکاٹ کر کے انتہا پسندی کا آغاز کردیا ہے۔

2024 میں وفاق ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومتیں ن لیگ کا وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کا صدر مملکت ہے مگر کے پی میں وزیراعلیٰ پی ٹی آئی کا اور گورنر پیپلزپارٹی سے ہے اور پی ٹی آئی نے 9 مئی کے بعد بھی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے مگر کے پی میں اسے اسمبلی ہی میں بھاری اکثریت حاصل ہے اور باقی صورت حال اس کے لیے اچھی نہیں رہے گی۔

2018میں پی ٹی آئی کا صدر مملکت تھا مگر اب پیپلزپارٹی کا ہے موجودہ صورت حال میں پنجاب، سندھ و بلوچستان کی حکومتیں وفاق کی مدد سے اپنے صوبوں میں کارکردگی دکھائیں گی اور کے پی کے ہی کی حکومت وفاق سے مزاحمت جاری رکھے گی، وفاق اور پنجاب میں ن لیگی حکومتوں کو پی ٹی آئی کی اپوزیشن اور سخت مزاحمت کا سامنا رہے گا اور ایوانوں کے باہر وہ احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرچکی ہے جس سے حکومتوں پر تو اثر نہیں پڑے گا مگر احتجاج سے نقصان پی ٹی آئی کا ہوگا اور سرکاری مشینری ان کے خلاف استعمال ہوگی۔

مقدمات بنیں گے گرفتاریاں ہوں گی مگر پھر بھی بانی پی ٹی آئی کو حکومت رہا نہیں کرے گی اور مزاحمت اور احتجاج کا سارا نقصان کے پی کے کی حکومت کو ہوگا اور وہاں گورنر راج بھی منڈلاتا رہے گا اور وہاں حکومت کارکردگی نہیں دکھا پائے گی جس کا سارا نقصان وہاں کے عوام کا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!
Seraphinite AcceleratorOptimized by Seraphinite Accelerator
Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.