سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262 کوئٹہ سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی عادل بازئی کی رکنیت بحال کر دی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حلقے کے عوام کو ان کے منتخب نمائندے سے محروم کرنے کے لیے ٹھوس اور سخت پیمانے ہونا ضروری ہیں۔
عمرے کی آڑ میں گداگری کے لیے سعودی عرب جانے والی 3 خواتین گرفتار
فیصلے کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے اور استفسار کیا کہ آیا کمیشن نے حقائق جانچنے کے لیے مناسب انکوائری کی؟ انہوں نے کہا کہ صرف بیان حلفی کی بنیاد پر فیصلہ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ کسی بڑی شخصیت کے خط پر رکن اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنا مناسب عمل نہیں۔
عادل بازئی کے وکیل سردار تیمور نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بغیر کسی تحقیق کے عجلت میں کارروائی کی اور ہمارا مؤقف سنے بغیر فیصلہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کا بیان حلفی طلب کیا لیکن مہیا نہیں کیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے بعد ازاں عادل بازئی کی ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک یہ معطلی برقرار رہے گی۔
پس منظر:
عادل بازئی نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن بجٹ سیشن کے دوران پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کی تھی۔ ان کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا جس میں الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔