رواں سال جنوری میں سندھ میں آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) کے محققین نے حاملہ خواتین اور نومولود کی صحت پر پڑنے والے شدید گرمی کے اثرات کے حوالے سے چار سالہ مطالعاتی منصوبے کا آغاز کیا۔
برطانیہ کے خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ کی فنڈنگ سے شروع ہونے والے اس منصوبے میں سندھ کے ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر اور مٹیاری اضلاع کی 6 ہزار خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا جبکہ اس منصوبے میں کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں جیسے کھارادر، دھوبی گھاٹ اور کورنگی کی رہائشی خواتین کو بھی شامل کیا جائے گا۔ یہ پروجیکٹ حاملہ خواتین پر پڑنے والے گرم موسم کے اثرات اور ان کی وجہ بننے والے عوامل کا تعین کرنے میں مدد کرے گا جبکہ تحقیق کا حصہ بننے والی خواتین کو پہننے اور گھروں میں رکھنے کے لیے آلات بھی دیے جائیں گے جن سے ان کے گھروں کے درجہ حرارت کی مانیٹرنگ کی جاسکے گی۔
اے کے یو کے شعبہ پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے اسسٹنٹ پروفیسر جئے داس نے تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی میں اضافے کے ساتھ ساتھ صحت پر پڑنے والے اس کے اثرات میں بھی اضافہ دیکھا ہے۔ یہ نیا مطالعہ ان خواتین پر مرکوز ہے جو سال کے گرم مہینوں میں حمل سے گزرتی ہیں۔ ہم اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کریں گے اور جمع ہونے والے ڈیٹا کا موازنہ ان خواتین کے اعداد و شمار سے کیا جائے گا جو معتدل موسم یا موسمِ سرما میں دورِ حمل سے گزریں‘۔
موسمِ گرما اور نومولود بچوں کی اموات
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق اوسطاً پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 46 نومولود بچے انتقال کر جاتے ہیں۔ بچوں کی اموات مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے لیکن اس میں شدید درجہ حرارت کا عنصر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
لیاری جنرل اسپتال کی ماہر امراض نسواں صفیہ منظور کہتی ہیں، ’شدید گرم موسم میں ہم قبل از وقت پیدائش (پری میچیور) کے زیادہ کیسز دیکھتے ہیں‘۔
لیڈی ہیلتھ وزیٹر (ایل ایچ وی) نصرت بانو تھرپارکر میں نرسنگ اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کرتی ہیں، بتاتی ہیں، ’مارچ اور اپریل 2023ء کے درمیان، 6 ہفتوں کے وقت میں قبل از وقت پیدائش کی تعداد زیادہ دیکھی گئی۔ زیادہ تر بچوں کی پیدائشں حمل کے آٹھویں مہینے میں ہوئی جبکہ ان بچوں کی اکثریت نے جلد ہی دم توڑ دیا‘۔
یہ وہی وقت ہے جب گرمی کی لہر اپنے عروج پر تھی لیکن جب تک کہ دیگر عناصر کا عمل دخل نہ ہو تب تک عمومی طور پر آٹھویں مہینے میں پیدا ہونے والے بچے مرتے نہیں ہیں۔
پروجیکٹ کے ریسرچ منیجر محمد خان جمالی بتاتے ہیں، ’بہت سے عوامل زچہ اور بچہ کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن گرمی کی شدت یقینی طور پر ان میں سے ایک بنیادی عنصر ہے۔ مثال کے طور پر گنجان آباد شہری علاقوں میں چھوٹے فلیٹس میں مقیم خواتین شدید گرمی میں کھانا پکاتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں گرمی کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب وہ حاملہ ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس حوالے سے ڈیٹا دستیاب نہیں لیکن ’تجربات اور واقعات نشاندہی کرتے ہیں کہ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق چیلنجز میں شدید گرمی کے باعث اضافہ ہوتا ہے‘۔
محمد خان جمالی نے مزید کہا کہ ’مقامی کمیونٹیز اب اس بات کو سمجھ رہی ہیں اور ساتھ ہی وہ خود کہہ رہے ہیں کہ شدید گرمیوں میں پیدا ہونے والے بچوں کا وزن کم ہوتا ہے یا ان کی پیدائش نو ماہ مکمل ہونے سے پہلے ہوجاتی ہے‘۔
مطالعے کے اہداف
وائس چیئرمین اور اے کے یو کے شعبہ امراض نسواں کے پروفیسر ندیم زبیری کہتے ہیں کہ زچگی، حمل اور موسمیاتی تبدیلی کے تعلق پر توجہ دینے کا یہی وقت موزوں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گرمی اور درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ حاملہ خواتین پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ ان کا جسم ہارمونل تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے۔
یہ منصوبہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے کہ جب پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پانی کی قلت بھی شامل ہے جوکہ حاملہ خواتین کے مسائل میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں جنوبی ایشیا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی شدید لہر کا سامنا کررہا ہے جس کی وجہ سے ایسے مطالعے کی ضرورت تھی کہ جس میں زچہ اور نومولود پر شدید گرمی کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔
اے کے یو کے تحت ہونے والے مطالعے سے امید کی جارہی ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ گرمی حاملہ خواتین پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ اس بات پر بھی روشنی ڈالے گی کہ پیدائش کے 28 دنوں میں کس طرح شدید گرمی نوزائیدہ بچوں کی موت کا باعث بنتی ہے جبکہ یہ مطالعہ حل تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔