افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے شریعت کے دعوے بے نقاب

تشکُّر نیور ویب ڈیسک

کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد سے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے شریعت کے دعوے مکمل طور پر بے نقاب ہو چکے ہیں۔

افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد دہشت گرد ٹی ٹی پی نے نہ صرف فوراً ان کی حمایت کی بلکہ افغان طالبان کے تمام اقدامات کو درست قرار دیا۔

اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ بات ثابت ہوئی کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا واحد مقصد پاکستان میں دہشت گردی کرکے انتشار پھیلانا ہے۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے معصوم شہریوں کو شہید کر رہے ہیں مگر ان کے اپنے ملک میں حالات ابتر ہیں، افغانستان کے عوام خصوصاً اقلیتیں انتہائی مشکل حالات میں ہیں اور افغان طالبان کے مظالم کا شکار ہیں جبکہ افغانستان کی خواتین کو افغان طالبان نے زندہ درگو کر رکھا ہے، معاشرتی اقدار ہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلوؤں میں شدت پسندی کے علمبردار ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں، افغانستان میں اکثریت پشتون آبادی ہے جو 52.4 فیصد بنتی ہے اس کے بعد تاجک برادری سب سے زیادہ ہے جو 32.1 فیصد ہے جبکہ ہزارہ، ازبک، ترکمان اور دیگر برادریاں بہت کم تعداد میں موجود ہیں۔

افغان طالبان تاجک، ہزارہ، ترکمان اور دوسری لسانی اقلیتوں کیخلاف نسلی تعصب رکھتے ہیں اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے وہ اقلیتوں کو جان سے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

افغان طالبان نے چھوٹے لسانی ونسلی گروہوں کو اقتدار میں بھی بہت کم نمائندگی دی ہے جو ان کے متعصبانہ رویے کی زندہ مثال ہے، مذموم دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرنے والے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی اب مکمل طور پر بے نقاب ہو چکے ہیں اور دونوں شریعت اور دین اسلام کو خالصتاً اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں، مذہب کی آڑ میں دونوں گروہ نہ صرف اپنے لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک کیلئے بھی وبال جان بن چکے ہیں۔

یہ بات عیاں ہے کہ افغان طالبان طاقت کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دین اسلام کی اپنی ضرورت کے مطابق من پسند تشریح کے ماہر ہیں۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا بھارت کی جانب نرم رویہ بھی ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے، اسلام کے نام پر اودھم مچانے والوں کی بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کیخلاف معنی خیز خاموشی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا ہدف صرف اور صرف پاکستان میں بدامنی پھیلانا ہے۔

حال ہی میں افغان طالبان نے ڈبلیو ایف پی، یو این سی ایچ آر اور یونیسیف سے غریب خاندانوں کیلئے امداد بھی مانگی جو افغان عوام کے ابتر حالات کی عکاسی ہے، اسرائیل حماس جنگ کے دوران بھی افغان طالبان نے غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا۔

 

 

افغان طالبان کی حالیہ میڈیا پالیسی کے مطابق ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے گا جس سے مغرب اور امریکا ناراض ہوسکتے ہیں، افغان طالبان کی پالیسیز کسی صورت ان کے شریعت کے دعوے کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ طاقت اور کرسی کا کھیل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!