امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے امید ظاہر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملے پر بھارت کا ردعمل خطے میں وسیع تر تنازع کا باعث نہیں بنے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فاکس نیوز کے پروگرام ’اسپیشل رپورٹ ود بریٹ بائر‘ میں انٹرویو کے دوران کیا۔
ضلع خیبر میں ایم پاکس کے کیسز بڑھنے پر 12 روزہ اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ
22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی۔ یہ حملہ 2000 کے بعد خطے کا سب سے مہلک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام سرحد پار عناصر پر عائد کیا ہے، تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جے ڈی وینس نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، اگر کسی حد تک ذمہ داری کا حامل ہے، تو بھارت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے۔ امریکی قیادت، بشمول سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور اسے غیر انسانی قرار دیا ہے، تاہم بھارت کے الزامات کی براہ راست توثیق نہیں کی گئی۔
بھارت امریکا کا خطے میں اہم پارٹنر ہے، خاص طور پر چین کے اثرورسوخ کے تدارک کے لیے۔ جبکہ پاکستان، اگرچہ اب امریکی ترجیحات میں نسبتاً کم اہمیت رکھتا ہے، پھر بھی ایک اتحادی ملک ہے۔
واشنگٹن دونوں ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور کسی بھی ممکنہ فوجی تصادم سے بچنے کے لیے مشترکہ حل تلاش کریں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے الگ الگ رابطہ کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حملے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا ہے جبکہ پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ حملے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی فضائی کمپنیوں کی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھی فائرنگ کے تبادلے کی اطلاعات ہیں۔