فروری 2025 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں سال بہ سال 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو 3 ارب 12 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ جنوری کے مقابلے میں بھی ان میں 3.8 فیصد اضافہ ہوا، جس نے ملکی معیشت، حکومتی ذخائر اور درآمد کنندگان کے لیے اہم مالی مدد فراہم کی۔
سندھ میں گیس کے متاثرہ مقام پر امریکی ماہرین کی ٹیم کا معائنہ، گڑھے میں سیمنٹ بھرنے کی حکمتِ عملی زیرِ غور
مالی سال 2025 کے ابتدائی 9 مہینوں (جولائی تا مارچ) کے دوران مجموعی ترسیلات زر 28 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 33 فیصد زائد ہیں۔ مارچ میں سب سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب (98 کروڑ 70 لاکھ ڈالر)، متحدہ عرب امارات (84 کروڑ 20 لاکھ ڈالر)، برطانیہ (68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) اور امریکہ (41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر) سے آئیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں خطاب کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے بتایا کہ جون 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مالی سال 2025 میں ملک کو 26 ارب ڈالر کی غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں، جن میں سے 16 ارب ڈالر کے قرضے ری فنانس کیے جانے کی توقع ہے، جس سے اصل دباؤ صرف 10 ارب ڈالر تک محدود رہ جائے گا۔
معاشی سرگرمیوں میں بہتری کی امید ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر زرعی شعبہ گزشتہ سال کی سطح پر ہوتا تو جی ڈی پی گروتھ 4.2 فیصد تک پہنچ سکتی تھی، تاہم موجودہ تخمینہ 2.5 سے 3 فیصد کے درمیان ہے۔
افراط زر کے حوالے سے گورنر نے بتایا کہ مارچ 2025 میں ہیڈ لائن افراط زر کی شرح 0.7 فیصد سال بہ سال ریکارڈ کی گئی، جو دسمبر 1965 کے بعد سے سب سے کم ہے۔ سی پی آئی افراط زر کی اس کمی کی بنیادی وجوہات گندم، پیاز، آلو، دالوں اور بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پی آئی نومبر 2021 سے جولائی 2024 تک 33 ماہ مسلسل دو ہندسوں میں رہا، اور مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا، لیکن اب افراط زر میں واضح بہتری آئی ہے۔ گورنر نے یقین دلایا کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔