پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر و سابق صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کی سہولت کاری کررہی ہے

تشکُّر نیوز رپورٹنگ،

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر و سابق صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کی سہولت کاری کررہی ہے۔ مرزا شوگر مل نے قرضہ لیا اور اس قرض کی وہ ادائیگی نہیں کرسکے ہیں جس پر نومبر 2023 میں ان کے خلاف ہائیکورٹ سے ڈگری بھی جاری ہوچکی ہے۔ اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فلیڈ ملنی چاہیے، اگر کوئی جماعت اعتراضات اٹھارہی ہے تو الیکشن کمیشن کو اس کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز میڈیا سیل بلاول ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کی رہنما سعدیہ جاوید اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ جب ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تو ان پر مختلف نشستوں پر اعتراضات اٹھائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی بھی امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرتا ہے تو تمام ادارے اس امیدوار کے بارے میں لکھ کر بھیجتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ جات کی تفصیلات دی جاتی ہے لیکن ان دونوں نے کہیں نہ لکھ کر بھی غلط کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا کہ تمام امیدواروں نے ایک حلف نامہ جمع کرانا ہوتا ہے، جس میں تمام اثاثے اور اگر ان پر کوئی قرضہ ہے تو صرف 20 لاکھ روپے تک کی چھوٹ کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جو خط بھیجا ہے اس کا جواب میں اسٹیٹ بینک نےایک خط جاری کیا جو یکم جنوری کو جب چھٹی کا دن تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب ایک بینک نے اعتراض کیا تو دوسری جانب اسٹیٹ بینک ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور اسٹیٹ بینک یہ صفائی دے رہا ہے


کہ قرض کمپنی پر ہے ان پر نہیں ہیں۔ جبکہ اس کی گارنٹی میں پہلا نام فہمیدہ مرزا کا ہے اور اگر کسی نے ڈیفالٹ کیا ہے وہ الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ چھٹی کے روز اسٹیٹ بینک نے خط لکھ کر سہولت کاری کی ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے جو کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے اس کی وجہ مرزا شوگر مل نے قرضہ لیا اور اس کی وہ ادائیگی نہ کرنا ہے اور مذکورہ بینک نے ان کے خلاف عدالت میں کیس کیا اور سندھ ہائی کورٹ نے 29 نومبر 2023 کو 21 کروڑ سے زائد دینے کا پابند کیا، جس کے وہ ڈیفالٹر ہیں۔ سعید غنی نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن اسٹیٹ بینک سے پوچھے کہ وہ کیوں ان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ مرزا فیملی نے کاغذات نامزدگی میں تمام چیزیں چھپائی ہیں تو یہ مرزا فیملی آسمان سے تو نہیں اتری ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق اس وقت ان کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہوسکتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ جس بینک کا قرض ہے وہ اسٹیٹ بینک سے کہہ رہا ہے کہ فہمیدہ مرزا اس کی ضمانتی ہیں، اب اسٹیٹ بینک یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ گارنٹی دینے والا آزاد ہے اس لئے اسٹیٹ بینک کا کردار قابل مذمت ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک سیدھا سیدھا کیس ہے، اسٹیٹ بینک قرض دینے والے بینک کے درمیان سٹلمینٹ کرانا چاہتا ہے اس لئے اسٹیٹ بینک کے کردار پر نوٹس لیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر ہر جماعت کو لیول پلیئنگ فلیڈ ملنی چاہیے، اگر کوئیجماعت اعتراضات اٹھارہی ہے تو الیکشن کمیشن کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2018 میں بھی پیپلز پارٹی نے مرزا فیملی کا مقابلہ کیا تھا۔ اگر ہمارے اعتراضات بلا جواز ہوتے تو بتائیں۔ کاغذات نامزدگی اس بار زیادہ مسترد ہونے کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ 2023 میں کاغذات نامزدگی جو مسترد ہوئے ہیں اس کی شرح گذشتہ انتخابات میں مسترد ہونے والوں سے کم ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ مفرور ہیں اس لئے ان کے کاغذات نامزدگی زیادہ مسترد ہوئے ہیں۔

 

 

انہون نے کہا کہ ٹی آئی والے چیمپئن ہیں وہ مارتے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں اس پر کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہم مذمت کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!