فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق، کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اپنے رہنما عبداللہ اوکلان کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ترک ریاست کے خلاف چار دہائیوں کی مسلح جدوجہد کے بعد سامنے آیا ہے۔
بوٹ بیسن تشدد کیس شاہ زین مری کے گارڈز 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
پی کے کے سے وابستہ نیوز ایجنسی ’اے این ایف‘ کے مطابق، تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہم اپنے رہنما کی امن اور جمہوریت کے قیام کی اپیل کو تسلیم کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔”
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی، امریکہ اور یورپی یونین پہلے ہی پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ 1984 میں مسلح بغاوت شروع کرنے والی اس تنظیم کا مقصد کردوں کے لیے ایک الگ وطن بنانا تھا، جو ترکی کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔
اوکلان کو 1999 میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا، اور اس کے بعد سے کئی بار امن معاہدوں کی کوششیں ہو چکی ہیں، تاہم 2015 میں مذاکرات ناکام ہونے کے بعد کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
گزشتہ اکتوبر میں صدر رجب طیب اردوان کے قوم پرست اتحادیوں نے جنگ بندی کے امکان کو مشروط طور پر قبول کیا تھا، جس کے بعد کرد نواز ڈی ای ایم پارٹی نے بھی پی کے کے سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کی اپیل کی تھی۔
یہ اعلان خطے میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ ترک حکومت اس موقع کو دیرپا امن کے لیے استعمال کرتی ہے یا نہیں۔