ارمغان نعیم خان
پاک بحریہ کو ایک مرتبہ پھر یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ بطور سفیر پاکستان برائے امن دنیا بھر میں نہ صرف امن و سلامتی کا پیغام پھیلائے بلکہ نہایت مثبت انداز میں پاکستان کا وقار بلند کرے۔
دکی مائنز کی سیکیورٹی: وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی اہم اقدامات کا اعلان
موجیں ہوں گی اور ان موجوں کا سینہ چیرتے بحری بیڑے، موجوں کی تہ میں سرعت و خاموشی سے تیرتی آبدوزیں اور آکاش میں محو پرواز فضائی نگران۔ پھر ایک مرتبہ ساحلوں کے کنارے ہوں گے اور ان ساحلوں کو مسخر کرتی چاق و چوبند بحری سپاہ۔ سیاہ رات کی تاریکی ہوگی اور اسی سیاہ تاریکی میں پاتال کی اوٹ سے نکل کر گھات لگانے والے بحری محافظ۔ یہ سب اس عظیم الشان بحری مشق میں ہونے جارہا ہے جو امن نامی بحری مشقوں کے سلسلے کی امن 2025 بحری مشق ہے جس کا انعقاد 7 سے 11 فروری 2025 کو کیا جا رہا ہے۔ حسب دستور ان مشقوں کی میزبانی کا شرف پاک بحریہ کو حاصل ہوگا۔ 2007 میں ان مشقوں کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد سے یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ 2007 کے بعد سے ان مشقوں میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جار ہا ہے۔ بہت سے ممالک نے پاک بحریہ کی دعوت قبول کی اور شمولیت کا یقینی عند یا دیا ہے جو اپنے بحری و ہوائی بیڑوں کے علاوہ تربیت یافتہ سپاہ کے ساتھ مشقوں میں حصہ لیں گے۔ اس کے علاوہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے بحری مبصرین ان مشقوں کا حصہ ہوں گے۔ یہ مشق ساحل اور بیچ سمندر متعدد بحری کارروائیوں پر مشتمل ہوگی جس میں بحری افواج نہ صرف پیشہ ورانہ امور کا مظاہرہ کریں گی بلکہ معلومات کے تبادلے کے ذریعے سے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ بھی اٹھا ئیں گی۔
اس کثیر القومی بحری مشق کا آغاز پاکستان نیوی نے 2007 ء میں شمالی بحیرہ عرب میں کیا۔ اس کے بعد سے اس مشق کا انعقاد ہر دوسرے سال یا قاعدگی سے کیا جانے لگا۔ اس مشق کی بنیاد چند اہم عوامل پر بھی گئی ہے، جیسے کہ معلومات کا تبادلہ، معاونت اور مشترکہ مفادات کے معاملات پر توجہ دینا۔ اس مشق میں بحری سیکورٹی اور انسانیت کی مدد بشمول مشکل میں گھرے افراد کی تلاش اور امداد پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ انہی چیلنجز کے مد نظر بدلتے حالات سے نمٹنے کے طریقہ کار اور ضوابط یا Response Tactics Techniques and Procedure مرتب کیے جاتے ہیں تا کہ اہم سمندری تنصیبات کی حفاظت کی جاسکے اور نقل حمل کے سمندری راستوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماسوائے چند ایک کے گیارہویں صدی تک کی بیشتر مسلمان قوموں نے جن میں ترک، اومانی اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی دیگر اقوام شامل ہیں، نے سمندر کی اہمیت کو نظر انداز کیے رکھا جس کی ان کو بھاری قیمت ادا کر نا پڑی۔ اگرچہ بحری ماہر اپنے سمندری تجربہ کے باعث سمندر سے جڑے خطرات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں مگر بحری ماہرین کے علاوہ باقی افراد کو ان خطرات کا علم نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے صورت حال اس وجہ سے بھی سنجیدہ اور غور طلب ہو جاتی ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک جارہانہ عزائم رکھتا ہے اور انہی عزائم کے تحت وہ یہ چاہتا ہے کہ خلیج سوئز (Gulf of Suez) سے لے کر آبنائے ملاکہ (Straits of Malacca) تک بحر ہند کا مکمل کنٹرول سنبھال لے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہے، جس میں 200 کلومیٹر کا سمندری علاقہ اقتصادی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان آبنائے ہرمز Straits) (of Hormuz اور خلیج فارس (Persian Gulf) کے سنگم پر واقع ہے، جہاں سے روزانہ ہزاروں بحری جہازوں کے ذریعے 17 ملین ٹن خام تیل، معدنی گیس اور دیگر اشیاء کی سمندری ترسیل کی جاتی ہے۔ ان تمام حقائق کے باعث پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ جنوب ایشیاء سمندری خطے میں اپنی موجودگی اور دبدبہ برقرار رکھے، جو کہ پاکستان کے دفاع کے علاوہ اقتصادی ترقی کیلئے بھی نہایت ضروری ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کی دوست ممالک کے ساتھ مشتر کہ تربیت کے تجربات عمل میں لائے گئے جو نہ صرف دوست ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کے فروغ کا باعث بنے بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں کا مؤثر تدارک بھی ہے۔ اس سلسلے میں بحری افواج یعنی پاکستان نیوی نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نیوی کے جہازوں پر مشتمل بیڑوں کا قریب اور دور کے ممالک کے خیر سگالی دوروں نے ان ممالک میں پاکستان کا انتہائی مثبت تاثر قائم کیا۔ انہی جنگی بیڑوں نے علاقائی اور غیر علاقائی بحری افواج کے ساتھ مل کر بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا جس کے باعث باہمی تعلقات کو تقویت ملی اور ہماری پیشہ ورانہ صلاحیت کو ہر جگہ سراہا گیا۔
امن 2025 ایک اور لحاظ سے منفرد مشق ثابت ہوگی، کیونکہ اس مرتبہ عملی بحری مشقوں کے علاوہ پہلی مرتبہ AMAN Dialogue” کو شامل کیا جارہا ہے۔ یہ مشترکہ بات چیت کا ایک نیا سلسلہ ہوگا جس میں شریک ممالک کے بحری قائدین بحری معاملات پر گفتگو کریں گے اور اپنے تجربات سے آگاہ کریں گے۔ اس سلسلے میں ہونے والی تمام تر گفتگو مفید ثابت ہوگی اور عملی اقدامات کی راہ ہموار کرے گی۔
اگر ہم گزشتہ تجربات کو دیکھیں معلوم ہوگا کہ 2007ء میں جب پہلی مرتبہ اس مشق کا آغاز کیا گیا تو ہمیں اس میں بہت بڑی کامیابی ملی۔ امن 2007 میں بنگلہ دیش ترکی اور امریکہ کے 14 جہازوں کے علاوہ بنگہ دیش اور ترکی کی اسپیشل فورسز اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ 27 ملکوں کے بحری ماہرین نے ان مشقوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ امن 2009 میں 14 بحری اور 2 ہوائی جہازوں کے علاوہ آسٹریلیا، بنگلہ دیش، چین، فرانس، جاپان، ملائشیا، برطانیہ، نائیجیریا اتر کی اور امریکہ کی اسپیشل فورسز ٹیموں نے حصہ لیا۔ 24 ملکوں کے بحری ماہرین نے بھی ان مشقوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ امن 2011 مورخہ 8 سے 12 مارچ 2011 تک منعقد کی گئی ۔ پاکستان نیوی کی دعوت پر 39 ممالک نے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ ان ممالک میں سے کل 28 ممالک نے اپنے بحری اثاثہ جات اور مبصرین کو اس مشق میں شرکت کیلئے بھیجا۔ آسٹریلیا، چین، فرانس، انڈونیشیا، اٹلی، ملائشیا سعودی عرب اور امریکہ کے 11 بحری جہازوں نے اس مشق میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا اور جاپان کے تین ہوائی جہاز اور چین ترکی اور امریکہ کی اسپیشل فورسز اور دھماکہ خیز مواد کوناکارہ بنانے والے ماہرین بھی شامل ہوئے۔ ان مشقوں کا 43 ملکوں کے بحری ماہرین نے بھی تفصیلاً جائز لیا۔ امن 2013 میں 29 ممالک کی بحری افواج نے بھر پور حصہ لیا ۔ 10 مختلف ممالک کے بحری جہاز، 6 مختلف ممالک کی اسپیشل فورسز اور دھما کہ خیز مواد کو نا کارہ بنانے والی 9 ٹیموں اور 36 ممالک کے بحری مبصرین اس مشق میں شامل ہوئے۔ امن 2017 بھی اس مثبت سلسلے کی ایک کڑی ثابت ہوئی۔ اس مشق سے نہ صرف پہلے کی طرح پاکستان اور دوسرے ممالک کے مابین با همی روابط کو فروغ ملا بلکہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کی مثبت پوزیشن مزید واضح ہوئی۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کو بالعموم اور بحری افواج کو بالخصوص پیشہ ورانہ صلاحیت بڑھانے اور جنگی تیاری کرنے کا بھر پور موقع میسر آیا۔ مشقوں کے آخر میں بین الاقوامی کانفرنس برائے سمندری امور منعقد ہوئی۔ اس مرتبہ اس کا نفرنس کا بنیادی مقصد سمندری معیشت، ماحولیات اور سیکورٹی میں باہمی تعاون کے ذریعے مغربی بحر الکاہل اور بحر ہند کو قریب لانا”، تجویز کیا گیا۔ اس کا نفرنس میں بحر ہند اور بحر الکاہل میں سیکورٹی اور ماحولیات کے حوالے سے ان عوامل پر روشنی ڈالی گئی جن کا براہ راست اثر معیشت اور بین الاقوامی جہاز رانی پر پڑتا ہے۔ امن 2019 کا انعقاد فروری 2019 میں کیا گیا۔ امن 2019 میں آسٹریلیا، چین، اٹلی ، ملائشیا ، اومان ، سری لنکا، ترکی، برطانیہ اور امریکہ کی بحری افواج کے 11 بحری جہازوں کے علاوہ جاپانی بحریہ کے بحری طیاروں نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر امن 2019 میں چھیالیس ممالک نے اپنے بحری اثاثہ جات اور ایک سو پندر و ماہرین اور مبصرین نے بھر پور حصہ لیا۔ امن 2021 اس سلسلے کی ساتویں مشق تھی جو فروری 2021 میں منعقد ہوئی۔ اس مشق میں پینتالیس ممالک نے اپنے بحری بیڑوں، ہوائی جہازوں اور بحری سپاہ کے ساتھ شرکت کی ۔ اس مشق کو بھی بین الاقوامی بحری ماہرین و مبصرین کی نگرانی میں مکمل کیا گیا۔ امن 2023 اپنی نوعیت کی ایک منفرد مشق ثابت ہوئی۔ اس مشق میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی بحری نمائش اور بین الاقوامی بحری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کے باعث بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاک بحریہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہے، بلکہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت کی حامل ہے۔
پاکستان بحیثیت ایک ذمہ دار ریاست اور اپنے اہم مرکزی محل وقوع کے باعث اپنی سمندری ذمہ داریوں سے نہ صرف بخوبی واقف ہے بلکہ اپنے خطے اور دیگر بحری افواج سے بھر پور تعاون کا خواہاں بھی ہے۔ پاکستان اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ دور حاضر کے بلند و بانگ بحری خطرات سے کوئی بھی ملک تن تنہا ہرگز نہیں نمٹ سکتا۔ لہذا بحری افواج کا اشتراک نہایت ضروری ہے جو تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب زمانہ امن میں بحری افواج مشقوں کے ذریعے باہمی تعاون بہتر بنا ئیں۔ پاک بحریہ کو ایک مرتبہ پھر یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ بطور سفیر پاکستان برائے امن دنیا بھر میں نہ صرف امن وسلامتی کا پیغام پھیلائے بلکہ نہایت مثبت انداز میں پاکستان کا وقار بلند کر سکے۔