سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے خلاف دائر درخواست پر وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے جواب میں تیاری کے لیے وقت دے دیا۔ سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی، جس کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے اہم ریمارکس دیے۔
مومن آباد پولیس کا موٹر سائیکل لفٹر کے خلاف کامیاب آپریشن
اہم نکات
فارم 45 اور 47 کا فرق: جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر دونوں فارم میں فرق ہے تو ایک صحیح اور دوسرا غلط ہوگا، اس معاملے کی مکمل انکوائری ضروری ہوگی۔
الیکشن کمیشن پر سوالات: عمران خان کے وکیل سے مکالمے میں جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کو جانبدار سمجھا جاتا ہے تو متعلقہ فارم پر انحصار کرنا چاہیے۔
سابقہ انکوائری کا حوالہ: جسٹس مندوخیل نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی دھاندلی کے ایشوز کی انکوائری کے لیے آرڈیننس جاری کرنا پڑا تھا اور ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری کرنا ہوتی ہے۔
وکیل کی جانب سے دلائل
وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں، لیکن عدالت میرٹ پر بات کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو 8 فروری کو ہوا، اس کے اثرات آج تک جاری ہیں۔
عدالت کے ریمارکس
جسٹس مندوخیل نے وکیل کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک ہر انتخاب کو غلط کہنا درست نہیں۔ عدالت نے وکیل کو مہلت دی اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔