امریکی سپریم کورٹ میں ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کے حوالے سے اہم سماعت مکمل ہو گئی، جس میں ایپ کے وکلاء، کانٹینٹ کریئیٹرز، اور امریکی حکومت کے دلائل پیش کیے گئے۔
اے این ایف کا منشیات اسمگلنگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، 12 ملزمان گرفتار
سماعت کی تفصیلات:
بی بی سی کے مطابق، تین گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران ٹک ٹاک کے وکیل نے اظہار رائے کی آزادی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو پابندی کے بجائے درمیانی حل تلاش کرنا چاہیے۔ کانٹینٹ کریئیٹرز کے وکیل نے بھی دلائل دیے کہ حکومت مواد تخلیق کاروں کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔
دوسری جانب امریکی حکومت کی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ٹک ٹاک چین کے زیر اثر ہے اور اسے امریکا کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
قانونی پس منظر:
امریکی حکومت نے گزشتہ برس پارلیمنٹ سے قانون منظور کروایا، جس کے مطابق ٹک ٹاک کو 19 جنوری 2025 تک اپنے امریکی آپریشنز کسی امریکی کمپنی یا فرد کو فروخت کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر، ایپ پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
سپریم کورٹ کا مؤقف:
سپریم کورٹ کی 9 رکنی بینچ نے ٹک ٹاک کی درخواست پر سماعت کی، تاہم جیوری نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ اطلاعات کے مطابق، ججز حکومتی مؤقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ 19 جنوری سے قبل سنائے جانے کا امکان ہے۔
سیاسی پہلو:
دلچسپ بات یہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف مؤقف اپنایا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ پابندی کا فیصلہ نئی حکومت پر چھوڑا جائے، جو اسے سیاسی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں ٹک ٹاک پر پابندی کی کوشش کی تھی، لیکن اس وقت عدالتوں نے ٹک ٹاک کو ریلیف فراہم کیا تھا۔
آئندہ کا منظرنامہ:
اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اور آیا ٹک ٹاک امریکا میں اپنی بقا برقرار رکھ پائے گا یا پابندی کا سامنا کرے گا۔