تحریر : سید محمد عروج
دوستو ۔۔۔واٹر بورڈ کے انجنئیرز کی غفلت کے باعث کراچی کے ساٹھ فیصد مکین رل گئے۔ نو روز میں مرمت کے بعد بحال کی جانے والی مرکزی پانی کی پائپ لائن پھر سے رسنے لگی۔ ذرائع کے مطابق بی آر ٹی منصوبے میں تعمراتی کام کے دوران لائن ٹوٹی تو مزدروں نے ہیوی مشینری کے ذریعے لائن میں کرش والی مٹی بھردی جسے سے لائن میں دور تک رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں تیرہ دن کے طویل وقت میں واٹر بورڈ انجنئیرز کی مہارت دوسرے روز ہی یونیورسٹی روڈ پر ٹوٹی لائن کے رساؤ میں نظر آگئی۔ پانی کی مسلسل بندش سے پریشان شہری ٹینکر مافیا کے ہاتھوں اب بھی یرغمال ہیں جبکہ واٹر بورڈ حکام اجلاس اور زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کررہے۔مرمتی لائن سے رساؤ کے باعث پریشر کی کمی کے سبب ملیر درخشاں سوسائٹی، کالا بورڈ، گلشن اقبال، برنس روڈ مارٹن کوارٹرز اور دیگر علاقوں میں پانی کا بحران سنگین ہوگیا ہے۔ لیکن واٹر بورڈ حکام کہیں نظر نہیں آرہے۔ دوسری جانب محض نجی کمپنی کا ایک ٹینکر پائپ لائن سے رسنے والا پانی نکالنے مصروف ہے۔ گزشتہ روز ہونے والا واٹر بورڈ حکام کا اہم اجلاس بھی بے معنی رہا۔ ان انجنئیرز کے خلاف بھی کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی جو آٹھ روز تک لائن کی مرمت کرتے رہے اور مرمت کے بعد لائن دوبارہ بیٹھ گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لائن میں کرش والی مٹی موجود ہے جس کی مکمل صفائی کی ضرورت ہے
یونیورسٹی روڈ پر 84انچ کی مرکزی پائپ لائن پھٹنے اور شہر کی بڑی آبادی میں پانی کی عدم فراہمی اب معمول کی بات ہوگئی ہے ۔ دوستو ۔۔لائنوں کا بار بار پھٹنا اور مرمت میں تاخیر سندھ حکومت اور واٹر کارپوریشن کی بدترین نااہلی و ناکامی کو عیاں کر رہی ہے،واٹر کارپوریشن اربوں روپے کے بیرونی قرضے لینے کے باوجود شہریوں کو پانی فراہمی میں ناکام ہو گئی ہے، ایم ڈی واٹر کارپوریشن کی جانب سے لائین کی مرمت اور پانی کی بحالی کے اعلانات محض اعلانات ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ واٹر بورڈ کی کارکردگی شرمناک حد تک خراب ہے۔کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے،پانی کی بندش سے ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے اور شہری مہنگے داموں پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں۔ گلشن اقبال، گلستان ِ جوہر، جمشید روڈ، طارق روڈ، مارٹن کوارٹر، بہادر آباد، لائنز ایریا، صدر، گارڈن، رامسوامی، لیاری، سولجر بازار، پی آئی بی اور لیاقت آباد سمیت تقریبا نصف کراچی شدید متاثر ہے اب تو ٹینکروں سے بھی پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے شہری شدید مصیبت کا شکار ہیں۔ دوستو ۔۔۔ یونیورسٹی روڈ پر ڈیڑھ ماہ میں دو تین مرتبہ پانی کی لائین پھٹ گئی ہے یا مرمت کے نام پر بند کی گئی ہے۔ اب پانی کی لائنیں پھٹنا بھی معمول بن گیا ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کو لاوارث سمجھ لیا گیا ہے ۔۔ نا اہلی اور ناکامی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف ریڈ لائین پروجیکٹ کی تعمیر میں مسلسل تاخیر عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف پانی کی لائنوں کے ٹوٹنے اور مرمت میں تاخیر کے باعث عوام پانی کے بحران کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔
کراچی: یونیورسٹی روڈ پر 84 انچ ڈایا مین لائن کا مرمتی کام پیر سے شروع ہوگا
شہریوں کا کہنا ہے کہ واٹرکمیشن کی و اضح ہدایات کے باوجود کراچی واٹر بورڈ اب تک کوئی سنجیدہ اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے قلت کے شکار علاقوں میں پانی کی سپلائی بہتر نہیں ہوسکی ذرائع نے بتایاکہ واٹربورڈ کےسپرنٹنڈنٹ انجینئر، ایکسئن لیول سے لے کر والومین تک ایم ڈی کی کسی قسم کی ہدایات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ذرائع کے مطابق نہ ہی اب تک کسی قسم کی تادیبی کارروائی سامنے آئی ہے جس کے باعث شہر میں پانی کا بحران کم ہونے کا نام نہیں لے رہا شہریوں کا طویل عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اگرواٹربورڈ کو دریائے سندھ اور حب ڈیم سے ملنے والے پانی کی صحیح تقسیم ہوتوشہر میں پانی کی قلت نہ رہے
دوستو ایک عام خیال یہ ہے کہ پانی کا مصنوعی بحران بھی ٹینکر مافیا کو نوازنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے،پانی کی کمی سے متاثرہ علاقوں میں واٹر ہائیڈرنٹس کو پانی ملنے کے سوال پر افسران جواب دینے کو تیار نہیں
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کراچی میں عوام کے ساتھ لوٹ مار کرنے والے گروہ کا ایک حصہ ہیں جو کراچی میں ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کے گرد گھومتا ہے۔ مختلف ذرائع اور شواہد پر مبنی ایک انتہائی محتاط اندازے سے پتا چلتا ہے کہ پانی کے ٹینکر کے کاروبار میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 6 کروڑ 20 لاکھ روپے کا پانی شہر بھر میں ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس کی مقدار کم و بیش 32 ملین گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) ہے۔ اہم ترین سیاسی شخصیات، حکومتی ارکان، واٹربورڈ کے اہلکار، ہائیڈرنٹ کے ٹھیکیدار، ٹینکر مالکان، پولیس، مقامی سطح کے مضبوط افراد،سیاسی کارکن سب اس بڑے منافع بخش کاروبار کا حصہ ہیں۔ شہر میں مساوی طور پر پانی کی تقسیم کے بجائے پینے کے پانی کو سونے جیسی ایک شے بنا دیا گیا ہے۔ جو قیمت ادا کرسکتا ہے اسے یہ بیچ دیا جاتا ہے۔
دوستو ۔۔۔پانی تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کراچی کے باشندوں کی اکثریت کو اس بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہےکراچی کا سرکاری پانی کا کوٹہ 650 ملین گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) ہے۔ اس کی آبادی کو دیکھتے ہوئے، کم از کم 450 ملین گیلن یومیہ کی قلت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ درحقیقت نیسپاک کے ایک حالیہ سروے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی اپنے 650 ملین گیلن یومیہ کے کوٹے کا مکمل پانی حاصل نہیں کرپارہا۔ شہر میں داخل ہونے والے پانی کی مقدار تقریباً 520 ملین گیلن یومیہ ہی ہے۔ کراچی کو فراہمیِ آب کے 3 ذرائع ہیں جن میں سندھ میں کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل اور بلوچستان میں حب ڈیم شامل ہیں۔کراچی کے ضلع غربی اور کیماڑی کم آمدن والے طبقے کے علاقے ہیں اور انہیں پانی کی دستیابی حب ڈیم سے ہوتی ہے۔ حب ڈیم میں پانی کا انحصار مکمل طور پر کیرتھر پہاڑی سلسلے سے آنے والے بارش کے پانی پر ہے۔ نہروں، نالیوں، پمپنگ اسٹیشنوں، فلٹر پلانٹس، کے 2 اور کے 3 منصوبوں اور لائنوں وغیرہ کے نیٹ ورک کے ذریعے سے کراچی کے مکینوں کے لیے پانی لایا جاتا ہے۔ واٹربورڈ اس کے انتظام اور تقسیم کی نگرانی کرتا ہے۔ ناقص انتظامات کے سبب اس پانی کا ایک تہائی حصہ ’نان ریونیو واٹر‘ کے طور پر ضائع ہوتا ہے، یعنی یہ پانی پمپ کیا جاتا ہے لیکن کراچی کے لوگوں
تک پہنچ نہیں پاتا اور ضائع ہوجاتا ہے