یورپی ممالک شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی روشنی میں شامی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر نظرثانی کر رہے ہیں، جس سے ہزاروں پناہ گزینوں کے واپس جانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزرا کی غیر حاضری پر اپوزیشن اور حکومتی اتحادی برہم، ڈپٹی اسپیکر کی وارننگ
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یونان سمیت کئی یورپی ممالک نے شامی پناہ کی درخواستیں معطل کر دی ہیں، جس کے باعث ان درخواستوں کا فیصلہ رک گیا ہے۔ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2016 میں شامیوں کی جانب سے پناہ کی درخواستوں میں نمایاں اضافہ ہوا تھا، تاہم شام میں زلزلے، معاشی مشکلات اور تشدد کے باعث 2020 سے 2023 تک یہ درخواستیں تین گنا بڑھ گئیں۔
یونان میں مقیم شامی شہری نجم الموسیٰ نے بشار الاسد کی معزولی کی خبر پر ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک طرف وہ خوش تھے لیکن دوسری جانب واپسی کے خدشے سے پریشان ہیں۔ نجم، جو وکالت کا پیشہ چھوڑ کر یونان میں باورچی کے طور پر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں، "شام واپس جانا ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ ہمارا ملک ہمیں وہ زندگی فراہم نہیں کر سکتا جو ہم یونان میں گزار رہے ہیں۔”
شامی پناہ گزین ظفر ناہاس، جو برطانیہ میں پناہ گزین ہیں، نے بھی ایسی ہی تشویش ظاہر کی۔ وہ حلب سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کے باعث مطلوب تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر شامی پناہ گزینوں کے معاملات بغیر تفصیلی جائزے کے طے کیے گئے تو یہ ان کی زندگیوں میں شدید غیر یقینی پیدا کر دے گا۔
یورپ میں قانونی مدد فراہم کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کے مقدمات تعطل کا شکار ہیں اور ان پر قانونی چیلنجز کا امکان موجود ہے۔ اس دوران پناہ گزینوں میں تشویش بڑھ رہی ہے کہ آیا انہیں اپنے تباہ حال ملک میں واپس جانا پڑے گا یا نہیں۔