لاہور ہائیکورٹ نے والدین کی جانب سے بچوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان معاشرتی اقدار، بچوں کے وقار اور قانونی نظام پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
بلوچستان میں دہشتگردوں کے مظالم پر تقریب، لواحقین اور شرکاء کا دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم
جسٹس احمد ندیم ارشد نے ایک کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اکثر والدین مالی ذمہ داریوں سے بچنے یا ذاتی دشمنی کے تحت بچوں کی ولدیت کو چیلنج کرتے ہیں، جو خاندانی ادارے اور بچوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ایسی درخواستیں خالص مالی یا ذاتی مقاصد کے تحت دی جاتی ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے تاکہ بچوں کے حقوق اور جذباتی فلاح و بہبود کو محفوظ رکھا جا سکے۔”
قانونی حوالے:
عدالت نے کہا کہ اسلامی قانون کے مطابق، بچے کی پیدائش کے بعد مخصوص مدت کے اندر ولدیت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، جبکہ قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 128 کے تحت شادی کے دوران یا طلاق کے دو سال کے اندر پیدا ہونے والا بچہ قانونی طور پر جائز مانا جاتا ہے۔
فیصلے کی روشنی:
کیس میں درخواست گزار نے طلاق کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت کو چیلنج کرتے ہوئے ڈی این اے ٹیسٹ کی درخواست دی تھی، تاہم ٹرائل اور اپیلیٹ عدالتوں کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی۔
جسٹس ارشد نے کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹ ایک سائنسی ذریعہ ہونے کے باوجود اسے بچوں کی دیکھ بھال کے مقدمات میں ہراسانی یا تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجہ:
عدالت نے والدین کو تاکید کی کہ وہ بچوں کی ضروریات اور جذباتی فلاح و بہبود کو مقدم رکھیں اور قانونی نظام کا غلط استعمال نہ کریں، کیونکہ اس سے بچوں کی شناخت اور وقار پر دیرپا نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔