سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا

تشکُّر نیوز رپورٹنگ،

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

22 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریرکیا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہےکہ آئین پارلیمنٹ کو  پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق قانون سازی کا مکمل اختیار دیتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے فیصلےکے خلاف اپیل کا حق دینے کی قانونی شق پر 6 ججز  نے اختلاف کیا، 6 کے مقابلے میں 9 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز  پر  دینے والی شق کو کالعدم قرار  دیا جاتا ہے، اپیل کا حق ماضی سے دینےکی قانونی شق کی مخالفت 8 ججز نے کی۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ، اس ایکٹ سے کسی طرح کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے اور  ایکٹ انصاف تک رسائی اور بنیادی  حقوق کو یقینی بناتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

تحریری فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں، باہمی احترام کا تقاضا ہےکہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی رائےکو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں ہے، اس سے شفافیت اور  انصاف تک رسائی میں مدد  ملےگی، چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججز  پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ  زیادہ بااختیار  ہوگی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کے ساتھ شرعی تقاضہ بھی ہے، درخواست گزاروں کے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈمک بحث ہوگی جس میں عدالت کو نہیں پڑنا چاہیے۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا  جب کہ آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا،  آئین چیف جسٹس پاکستان کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا،  چیف جسٹس کا  ماسٹر آف روسٹرز  ہونا  آئین میں کہیں نہیں لکھا، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز  ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں۔ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو  چھوٹے بینچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے،  آئینی روایات کو قانون کی طرز  پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔

 

 

فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت ایک شخص کے پاس ہو تو تباہ کن نتائج مرتب ہوتے ہیں، ایک شخص کی طاقت کے استعمال سے ہونے والی تباہی کا شکار عدلیہ اور  پاکستانی عوام ہوئے، ایک شخص کے طاقت کے استعمال سے عدلیہ کی سالمیت  اور  وقار کو مجروح کیا جاتا رہا، ایک شخص کے ہاتھوں طاقت کا استعمال جاری رہا تو عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہوجائےگا، عدلیہ  پر عوامی اعتماد  ختم  ہونے سے عدالتی فیصلے صرف  بے وقعت اور  بے وقار کاغذ کا ٹکڑا بن جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!