اسلام آباد: قومی اسمبلی کا اجلاس 10 دسمبر بروز منگل شام 5 بجے طلب کر لیا گیا ہے۔ یہ اجلاس صدر مملکت آصف زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر طلب کیا۔
شام: دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر مسلح افراد کا دھاوا
قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے اجلاس کے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے بتایا کہ یہ 16ویں قومی اسمبلی کا 11واں اجلاس ہوگا۔ اجلاس میں معمول کے ایجنڈے کے ساتھ دینی مدارس سے متعلق قانون سازی پر بھی غور کیے جانے کا امکان ہے۔
دینی مدارس بل پر تنازعہ
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل منظور کرنے کے لیے 8 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بل منظور نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گا۔
جے یو آئی (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے حکومت پر زور دیا تھا کہ بل کو جلد منظور کیا جائے۔ ان کے مطابق بل کو مسترد کرنا مذہبی قوتوں میں اشتعال پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حالیہ جلسوں میں حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن پر زبردستی اصلاحات مسلط کرنا ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست سے تصادم نہیں چاہتے، لیکن اگر حالات مجبور کریں تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
حکومت کی یقین دہانیاں
وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے بل پر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ جے یو آئی (ف) کے ترجمان کے مطابق مولانا نے حکومت کو خبردار کیا کہ مدارس کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
صدر مملکت کی مخالفت
صدر آصف زرداری نے دینی مدارس بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس پر دستخط سے انکار کر دیا تھا، جس پر جے یو آئی (ف) نالاں ہے۔ مولانا کے مطابق صدر کا یہ اقدام جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
سیاسی رابطے اور مذاکرات
گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمٰن سے حکومت کے مختلف عہدیداروں اور سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کو بل پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی جبکہ سابق وزیر فیصل واوڈا نے مولانا سے سیاسی کشیدگی کم کرنے پر بات کی۔
جے یو آئی کے مطابق حکومت قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے بل کو ایکٹ کا درجہ دے اور نوٹیفکیشن جاری کرے، بصورت دیگر احتجاج ناگزیر ہوگا۔