وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک میں معیشت کی حالت بہتر ہو رہی ہے، مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھی جارہی ہے، میکرواکنامک استحکام آنے سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔
بشریٰ بی بی کا کہنا ہے کہ میں بھاگنے والی عورت نہیں ہوں، ڈی چوک میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا
تشکر نیوز کے مطابق کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرعی اور ریٹیل سیکٹر کو بھی ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا، حکومت کسی کی بھی ہو، معیشت کی ترقی کے لیے پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے سرمایہ کاروں کے اعتماد بڑھنے کی رپورٹ معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے، تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کا ملکی ترقی میں اہم کردار ہے، پرائیوٹ سیکٹر کو ترقی دینی ہے، یہی شعبہ معیشت کو مستحکم کرنے میں معاونت کرے گا، بزنس کانفیڈنس سروے جلد ریلیز کیا جائے گا۔ شرح سود میں کمی کا فائدہ براہ راست سرمایہ کاروں کو ہوتا ہے، شرح سود میں کمی کا فیصلہ اسٹیٹ بینک نے کرنا ہے، تاہم افراط زر کم ہورہی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب تک ہمارے اقدامات سے سرمایہ کاروں کا حجم بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، اس وقت کمپنیوں کے منافع اور ڈیوڈنڈ کا سائیکل چل پڑا ہے، ان کے حجم میں اضافہ ہورہا ہے، جس کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ سب مارکیٹ میں بہتری کی وجہ سے ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ بھی کام کر رہے ہیں، اس میں برآمدات کا عنصر ضرور مد نظر رکھیں، اب یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ معاشی استحکام تو آچکا لیکن اسے آگے کیسے بڑھایا جائے گا، اس کے لیے ہمیں برآمدات پر فوکس کرنا ہوگا، ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ہر شعبہ ایکسپورٹ میں اپنا حصہ ضرور ڈالے، خواہ وہ 5 فیصد ہی کیوں نہ ہو۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے، آرامکو اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں نے حال ہی میں سرمایہ کاری کی ہے، انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت کی جو بات کی جاتی ہے، اس پر کام ہونا چاہیے، خواہ کسی بھی جماعت کی حکومت ہو، پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، اس کے بغیر معاشی ترقی محض خواب ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اسمگلنگ پر قابو پایا جارہا ہے، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات اور سگریٹس کی اسمگلنگ کو قابو کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے، جن کا اعتراف اسٹیک ہولڈرز نے بھی کیا ہے، ہم نے ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے ایکشن لیا ہے، ایسے دکانداروں کو بھی وارننگ دی گئی ہے جو اسمگلنگ کی اشیا بیچتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا بھی سیلری کلاس سے تعلق تھا، میں خود بھی تنخواہ پر ٹیکس دیتا رہا ہوں، ریئل اسٹیٹ، زراعت، ہول سیلرز اور ریٹلیرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا نہیں ہے، بلکہ لایا جارہا ہے، تین صوبے زرعی ٹیکس پر رضامند ہوچکے ہیں، ہم سندھ سے بھی بات کرنے جارہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس میں خامیوں یا کرپشن کو روکنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب جارہے ہیں، اس حوالے سے ڈیٹا سے مدد لی جارہی ہے، سیلز ٹیکس چوری کرنے والوں سے بات کرکے انہیں سمجھایا جائے گا کہ اس طرح آپ کا بزنس ماڈل چل نہیں سکتا۔
محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی سے عوام کو فائدہ ہو رہا ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اسٹینڈرڈ ایجنڈا بنایا ہے، اس کی مفصل رپورٹ بھی پیش کی گئی ہے، ضلعی سطح پر ہماری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال اور متحرک ہونا چاہیے، کیوں کہ غذائی اشیا، ٹرانسپورٹ کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، لیکن اس کے ثمرات صحیح معنوں میں عوام تک نہیں پہنچ رہے۔