جی ایچ کیو حملہ کیس میں گرفتار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سابق وزیر قانون پنجاب راجا بشارت سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پشاور ہائی کورٹ سےضمانت کے باوجود گرفتاریوں پر برہمی کا اظہار کیا۔
افغانستان: فحش پروگرامز کی ڈبنگ کیلئے دفتر استعمال کرنے پر ٹی وی چینل بند
تشکر نیوز کے مطابق جمعرات کو اڈیالہ جیل میں جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان سمیت 60 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی جس کے بعد اٹک پولیس نے گزشتہ روز عمر ایوب، راجا بشارت، احمد چٹھہ، ماجد دانیال اور ملک عظیم کو اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کرلیا تھا۔
جمعہ کو انسداد دہشت گری کی خصوصی عدالت کے جج امجد شاہ نے کیس کی سماعت کے دوران عمر ایوب اور راجا بشارت سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی رہائی کا حکم دے دیا۔
عدالت نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت ہونے کے باوجود کیوں گرفتار کیا؟
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں پولیس لائنز میں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، میرے پاس یہ پشاور ہائی کورٹ کا بیل آرڈر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے پولیس سے پوچھا کہ آپ نے کس قانون کے تحت عمر ایوب اور راجا بشارت کو گرفتار کیا، ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا عدالت نے ہماری ضمانت منظور کر کے ریلیز کرنے کا حکم دیا۔
عمر ایوب نے کہا کہ یہ صرف اور صرف گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو کی غیر قانونی گرفتاری تھی، انہوں نے کہا کہ ’میں شہباز شریف، مریم نواز، آئی جی پنجاب، محسن نقوی اور ڈی پی او اٹک کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔‘
واضح رہے کہ 9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔