بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے ملک بھر کے سیاست دانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات کو دور رکھیں اور ’بھارتی جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں۔
لاہور، گجرات سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں زلزلہ
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اگست میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی ایک بغاوت کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے، جس نے مطلق العنان وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹ دیا تھا اور ان کی 15 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
دنیا میں حسینہ واجد کے سب سے بڑے سرپرست اور ان کی جلاوطنی کی منزل بھارت، نے محمد یونس کی انتظامیہ پر اقلیتی ہندوؤں کے تحفظ میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا ہے، جس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
محمد یونس نے بنگلہ دیشی سیاسی جماعتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ وہ نئے بنگلہ دیش کی تعمیر کی ہماری کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں اور فرضی کہانیاں پھیلا رہے ہیں، انہوں نے یہ افواہیں خاص ممالک اور بااثر کھلاڑیوں کے درمیان پھیلائی ہیں’۔
یونس نے اجلاس میں موجود سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ غلط معلومات پھیلانے کی مہم کے خلاف متحد ہو جائیں، انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ’ہمارے وجود کا سوال‘ ہے۔
واضح رہے کہ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک نگران انتظامیہ کو نئے انتخابات سے قبل جمہوری اصلاحات نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتقامی حملے دیکھنے میں آئے، جس کی بنیاد حسینہ کی حکومت کی مبینہ حمایت تھی، یونس کی انتظامیہ نے ہندوؤں پر حملوں کا اعتراف کیا ہے اور ان کی مذمت کی لیکن کہا ہے کہ بہت سے معاملوں میں وہ مذہب کے بجائے سیاست سے متاثر ہوئے۔
انہوں نے ہندوستان پر تشدد کے پیمانے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ’پروپیگنڈا مہم‘ چلانے کا الزام لگایا ہے۔
محمد یونس کی میڈیا ٹیم کا کہنا ہے کہ بدھ کو ہونے والی یہ ملاقات ’بھارتی جارحیت‘ کے تناظر میں قومی اتحاد کو فروغ دینے کے اقدام کا حصہ تھی، محمد یونس نے منگل کی شام طلبا رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی اور حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف سڑکوں پر متعدد مظاہرے کیے گئے ہیں۔
رواں ہفتے بھارت میں ہندو تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے بنگلہ دیش کے قونصلیٹ پر دھاوا بولنے کی کوشش کے خلاف بدھ کے روز بنگلہ دیش میں درجنوں ریلیاں نکالی گئیں، انڈیا میں بنگلہ دیش کے قونصلیٹ پر حملے کی کوشش میں 7 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ بھارت نے اس واقعے کی مذمت بھی کی۔
بنگلہ دیش کی جیلوں میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو معزول کرنے والے طلبا انقلاب کے دوران بڑے پیمانے پر جیل توڑنے کے واقعات کے بعد سے تقریباً 700 قیدی تاحال مفرور ہیں۔
حسینہ واجد کی روانگی سے چند ہفتے قبل مسلم اکثریتی جنوبی ایشیائی ملک کی پانچ جیلوں میں مظاہرین کی جانب سے بغاوت یا محاصرے کے نتیجے میں تقریباً 2200 قیدی اپنی کوٹھریوں سے باہر نکل آئے تھے۔
بنگلہ دیش میں محکمہ جیل کے سربراہ محمد مطہر حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ جیلوں ست فرار تقریباً 1500 قیدیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، تاہم کئی قیدی اب تک ہاتھ نہیں آسکے، انہوں نے کہا کہ فرار ہونے والے قیدیوں میں سے کم از کم 70 ایسے ہیں جنہیں دہشتگردی کے مقدمات میں سزائیں ملی تھیں، ان میں سزائے موت والے قیدی بھی شامل ہیں۔