وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے اتفاق کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں فیصلہ مصنوعی ذہانت کو نہیں بلکہ انسانوں کو کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم کی طبیعت ناساز، نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس مؤخر
تشکر اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے فیصلے پر انسانی کنٹرول برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا، دونوں رہنماؤں نے ممکنہ خطرات کے حوالے سے احتیاط کے ساتھ غور کرنے اور فوجی شعبے میں اے آئی ٹیکنالوجی کی ترقی دانش مندانہ اور ذمہ دارانہ انداز میں کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بارے میں چینی حکومت کی جانب سے سرکاری اعلامیے میں بھی اس نکتے کی بازگشت سنائی دی لیکن وزارت خارجہ نے فوری طور پر معاملے پر رد عمل دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
یہ اتفاق اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ان 2 مسائل جوہری ہتھیار اور مصنوعی ذہانت پر بات چیت کے دوران کبھی پیش رفت نہیں ہوئی۔
دونوں ممالک نے نومبر میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے سرکاری سطح پر مذاکرات مختصر طور پر دوبارہ شروع کیے تھے لیکن اس کے بعد سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
چین میں تیزی سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں امریکی خدشات کے باوجود، نیم سرکاری تبادلے دوبارہ شروع ہونے کے باوجود، باضابطہ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے مذاکرات جلد ہی متوقع نہیں ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے معاملے پر چین اور امریکا نے اپنی پہلی باضابطہ دو طرفہ بات چیت کا آغاز مئی میں جنیوا میں کیا تھا لیکن خیال نہیں کیا جاتا کہ ان مذاکرات میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا گیا۔
امریکی محکمہ دفاع نے گزشتہ سال تخمینہ لگایا تھا کہ بیجنگ کے پاس 500 آپریشنل نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں اور 2030 تک وہ ممکنہ طور پر ایک ہزار سے زیادہ وار ہیڈز تعینات کردے گا۔
امریکا کے پاس ایک ہزار 770 اور روس کے پاس ایک ہزار 710 آپریشنل وار ہیڈز ہیں، پینٹاگون نے کہا کہ 2030 تک چین کے زیادہ تر ہتھیار ممکنہ طور پر ہائی الرٹ پر ہوں گے۔
چین نے باضابطہ طور پر اپنے ہتھیاروں کی تفصیل نہیں بتائی جب کہ وہ باضابطہ طور پر انہیں پہلے استعمال نہ کرنے اور کم سے کم جدید ایٹمی ڈیٹرنس کو برقرار رکھنے کی پالیسی کو برقرار رکھتا ہے، حکام نے رواں برس دیگر طاقتوں پر بھی یہی مؤقف اپنانے پر زور دیا۔