احتساب عدالت اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سابق خاتون اول کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 18 نومبر تک ملتوی کر دی۔
اسموگ کی بگڑتی صورتحال، لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں 190 ملین پاونڈ ریفرنس پر سماعت سماعت احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی۔
دوران سماعت بشری بی بی پیش نہ ہوئیں اور ان کی جانب سے طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت عالیہ کا حکم ہے پہلے ملزمان کی بریت پر ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے، جج نے کہا کہ اسلام اباد ہائی کورٹ سے ابھی تک کوئی حکم نامہ موصول نہیں ہوا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تحریری طور پر عدالت میں کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا تھا، نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ جن وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دلائل دیئے تھے، ان ہی وکلا کی جانب سے تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کیا جانا چاہیے تھا، اگر وکلا تحریری طور پر عدالت کو دے رہے ہیں تو عدالت اس معاملے کو دیکھ لے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس درخواست پر ان وکلا کے دستخط بھی موجود نہیں جنھوں نے ہائی کورٹ میں دلائل دیے، عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر سماعت 18 نومبر تک ملتوی کر دی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔