حماس کی جانب سے سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے تازہ مسودے کو مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے قطر سے کہا ہے کہ قطر میں اب حماس کی موجودگی قابل قبول نہیں ہے۔
ماڈلنگ سے پہلے لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی تھی، آمنہ الیاس
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق خلیجی ریاست قطر نے امریکا اور مصر کے ساتھ غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے دوروں میں اہم کردار ادا کیا ہے جو اب تک بے نتیجہ رہے ہیں۔
اکتوبر کے وسط میں مذاکرات کے تازہ ترین دور میں بھی کوئی حتمی معاہدہ طے نہ پا سکا اور حماس نے قلیل مدتی جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کی تجاویز بار بار مسترد کیے جانے کے بعد امریکا کے پارٹنرز میں سے کسی کے بھی دارالحکومت میں حماس اور ان کے حامیوں کا خیرمقدم نہیں کیا جانا چاہیے، حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کی تجویز مسترد کیے جانے کے بعد ہم نے یہ بات قطر پر واضح کر دی تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ اس کے بعد قطر نے تقریباً 10 دن قبل حماس کے رہنماؤں سے یہ مطالبہ کیا تھا، حماس کے سیاسی دفتر کو کب بند کرنا ہے اس کے بارے میں امریکا، قطر کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس نے دوحہ کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے۔
امریکی عہدیدار کے دعوؤں کے برعکس حماس کے تین عہدیداروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ قطر نے حماس کے رہنماؤں کو کہا ہے کہ ان کا ملک میں مزید خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ آیا قطر نے حماس کے رہنماؤں کو ملک چھوڑنے کے لیے کوئی مخصوص ڈیڈ لائن فراہم کی تھی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی حملوں کے خاتمے کے لیے آخری کوشش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
جنگ بندی کے مذاکرات کے پچھلے دور میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مستقبل میں فوجی موجودگی کے بارے میں سامنے آنے والے نئے مطالبات پر اختلاف رائے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے تھے اور کوئی بھی معاہدہ طے نہ پا سکا۔