آئینی ترمیم کے معاملے پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت پر تنقید اور ترمیم کے معاملے پر حمایت سے پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیے جانے کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی اور آج بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد اب سینیٹ اور خصوصی کمیٹی کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔
فیصل قریشی کے ساتھ کام نہ کرپانے کا افسوس ہے، سعدیہ امام
تشکر نیوز کے مطابق آج سینیٹ کا اجلاس دوپہر 2 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن گزشتہ رات مولانا فضل الرحمٰن کی میڈیا سے گفتگو میں حکومت پر تنقید کے بعد اب قومی اسمبلی کے اجلاس کی طرح سینیٹ کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔
نئے شیڈول کے مطابق ایوان بالا کا اجلاس آج شام چھ بجے ہو گا جس کا سینیٹ سیکریٹریٹ نے سات نکاتی ایجنڈا بھی جاری کردیا ہے۔
ایجنڈے میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں کیا گیا اور ایجنڈے میں یکساں اسکیل اور الاؤنسز بل 2024 پر کمیٹی رپورٹ شامل ہے، اس کے علاوہ بینکنگ کمپنیز ترمیمی بل 2024 پر کمیٹی رپورٹ بھی ایجنڈے کا حصہ ہوگی۔
سینیٹ کے اجلاس کے ایجنڈے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2024 پر کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی جامعات کے اساتذہ کی بھوک ہڑتال پر توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہے۔
ایجنڈے میں صدر مملکت کے خطاب پر تشکر کی تحریک بھی شامل ہو گی۔
دوسری جانب 11 بجے طلب کیے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرِ صدارت اجلاس آج دن گیارہ بجے کے بجائے شام چھ بجے ہوگا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اجلاس کا آٹھ نکاتی ایجنڈا جاری کردیا جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل 2024 بھی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جبکہ وفاقی وزیر پارلیمانی امور قومی کمیشن برائے خواتین ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کریں گے۔
ایجنڈے میں وفاقی وزارت ہاؤسنگ میں بڑے پیمانے پر مبینہ غفلت پر توجہ دلاؤ نوٹس کے ساتھ ساتھ لیگل اینڈ جسٹس اتھارٹی ترمیمی بل 2024 پر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔
ادھر آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور اب اجلاس دوپہر ڈیڑھ بجے کے بجائے 3 بجے ہو گا۔
اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاقِ رائے پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے آئینی ترمیمی مسودوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔