فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے، نواز شریف

فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کا آغاز ہو گیا ہے۔

مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ایم پی سی میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف بھی شریک ہیں۔

پی ٹی آئی کا فلسطین سے متعلق حکومتی کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، مولانا فضل الرحمٰن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی بھی ایم پی سی میں شریک ہیں۔

اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہ دن دیکھیں ہیں جب بھٹو صاحب کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسر عرفات آتے جاتے رہتے تھے، میں خود یاسر عرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کر چکا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے نتیجے میں 41 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت اور تعلیم کے انفرا اسٹرکچر، عوامی املاک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیل نے اپنی اس سفاکانہ مہم میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانہ شروع کردیا ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ اپنے ان اقدامات سے اسرائیل ناصرف خطے کے امن، استحکام اور سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اس کے اقدامات سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں اشتعال انگیزی میں اضافے پر شدید تشویش ہے اور وہ فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور لبنان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور بہادر شہدا کے لیے دعاگو ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور ایسا کر کے وہ استثنی کے کلچر اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے عمل کو فروغ دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین اور لبنان کے عوام آزادانہ طور پر ڈر اور خوف کے بغیر زندگی بسر کرنے کے مستحق ہیں لہٰذا عالمی برادری اشتعال انگیزی میں کمی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور تنازع مزید نہ پھیل سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جارحیت کے خلاف تمام عالمی فورم پر آواز اٹھاتے ہوئے فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر ممکن نہیں، پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کو سپورٹ اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہے گا جو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان یروشلم سمیت مقبوضہ عرب سرزمین سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور حق خودارادیت کے مکمل اظہار کے لیے فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پالیسی پر قائم ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔

اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غریب فلسطینیوں پر ظلم کا بازار گرم ہے اور کوئی عسکری طاقت نہ ہونے کے باوجود ان پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بچوں کی خون آلود لاشیں اور شہروں کو کھنڈر میں بدلتے دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، جس طرح سے معصوم بچوں کو والدین کے سامنے شہید کیا جاتا ہے، ماؤں کی گود سے بچوں کوشہید کیا جاتا ہے، اس طرح کی سفاکیت ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا نے عجیب و غریب قسم کی پالیسی اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ اسے انسانی مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ بہت بڑا طبقہ اسے مذہبی مسئلے کے طور پر سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ جس طرح سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے اور انہی کی منظور کردہ قراردادوں پر کوئی عمل نہیں ہو رہا، افسوسناک بات یہ ہے کہ ان قراردادوں کے باوجود یہ صورتحال جاری ہے، وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سارا کام کررہے ہیں، انہیں پروا نہیں ہے کہ کون سی قرارداد منظور کی ہے اور لگتاہے کہ اقوام متحدہ کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ دنیا کی بہت بڑی باڈی ہے جو اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی، کشمیر پر بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا، تو ایسی اقوام متحدہ کا کیا فائدہ جو دنیا کو انصاف نہ دے سکے، جہاں ظلم ہو اسے روک نہ سکے اور ناانصافی کرنے والے دندناتے پھریں۔

ان کا کہنا تھاکہ فلسطینیوں کا خون ضرور رنگ لا کر رہے گا، میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے شہباز شریف نے جو روڈ میپ دیا ہے اس پر غوروخوض ہونا چاہیے اور اسلامی ممالک کو اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں، اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے اور اگر اس طاقت کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، آج اس طاقت کا استعمال کرنے کا موقع ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی پالیسی بنانی پڑے گی ورنہ ہم اسی طرح ہم بچوں کا بھی خون ہوتے دیکھتے رہیں، ماؤں، بہنوں اور والدین کو بھی شہید ہوتے دیکھتے رہیں گے اور کچھ نہیں کر سکیں گے، آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کیوں دندناتا پھرتا رہتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے عالمی طاقتیں ہیں جن کی اہمیت ہے لہٰذا ان عالمی طاقتوں کو سوچنا چاہیے کہ کب تک وہ اسلامی دنیا اور فلسطین کے لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی سفرشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ کریں اور اپنا موثر کردار ادا کریں کیونکہ پورے پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ کن اقدام کریں۔

فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن

کثیر الجماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔

انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلیے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا ، جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

65 / 100 SEO Score

One thought on “فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے، نواز شریف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!