گزشتہ 3 دہائیوں سے ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کی قیادت کرنے والے شیخ حسن نصر اللہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے جنہوں نے حزب اللہ کو ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم بنایا۔
وزیرستان میں ماڑی پیٹرولیم کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار، 6 افراد جاں بحق، 8 زخمی
گزشتہ روز اسرائیل نے لبنان کے درالحکومت بیروت پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ کیا جس میں حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا گیا جس کا بنیادی مقصد شیخ حسن نصراللہ کو مارنا تھا۔
حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت سے متعلق اب تک تنظیم کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر مصدقہ ذرائع نے اب تک ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔
البتہ اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بیروت حملے میں حسن نصراللہ کی شہادت ہوگئی ہے جب کہ ایرانی میڈیا نے ان کے محفوظ ہونے کی اطلاعات دی ہیں۔
اس کے علاوہ، حزب اللہ کے ذرائع نے غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے جمعہ کے حملوں کے بعد ان کا تنظیم کے سربراہ حسن نصراللہ سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے اور وہ ان تک پہنچ نہیں پارہے ہیں۔
شیخ حسن نصراللہ کون ہیں؟
64 سالہ حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے اہم ترین کمانڈر کے طور پر اس مزاحمتی تنظیم کو نہ صرف دفاعی طور پر مضبوط کیا بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اہم کردار دلوایا ہے۔
حسن نصراللہ ایک پرجوش اور جوشیلے خطیب ہیں، جنہوں نے اسرائیل سے مقابلے کے لیے ایران میں شیعہ مذہبی رہنماؤں اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا۔
حزب اللہ کے سربراہ کو لبنان کی طاقتور ترین شخصیت سمجھتے ہیں جن کے پاس ایک لاکھ سے زائد جنگجو ہیں اور ان کے گروپ کے افراد ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں۔
حسن نصر اللہ اپنی اہلیہ اور 3 بچوں کے ہمراہ بیروت کے ایک متوسط علاقے میں رہتے ہیں، ان کا بڑا بیٹا ہادی 1997 میں 18 برس کی عمر میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا تھا۔
زندگی کا ابتدائی دور
حسن نصر اللہ سنہ 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے، 1975 میں جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔
15 برس کی عمر میں انہوں نے لبنان میں شیعوں کی نمائندہ تحریک ’امل‘ میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے عراق کے شہر نجف میں قرآن اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور یہیں ان کی ملاقات سید عباس موسوی سے ہوئی جو لبنانی امل ملیشیا کے رہنما تھے۔
1978 میں حسن نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ لبنان واپس آ گئے جہاں انہوں نے بعلبک میں عباس موسوی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔
بعد ازاں انہیں بقا کے علاقے میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا، 1982 میں لبنان میں اسرائیلی در اندازی کے بعد حسن نصراللہ نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دیا۔
حسن نصر اللہ نے 1982 میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیم حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی جب کہ 1992 میں حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کی موت کے بعد حسن نصر اللہ کو تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف بہترین مزاحمتی حکمت عملی اپنائی اور سال 2000 میں 22 سال بعد اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے انخلا پر مجبور کردیا۔
2005 میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کیا، ان کا ماننا ہے کہ حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی تنظیم نہیں بلکہ دین اسلام کا پیغام پھیلا رہی ہے۔
غزہ جنگ میں حسن نصراللہ کا کردار
موجودہ دور میں ان کا تعلق صرف لبنان تک محدود نہیں بلکہ وہ ایران کے مزاحمتی محور میں سب سے زیادہ بااثر رہنما ہیں، اگر ان کی موت کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ اسرائیل مخالف گروہوں کے لیے بڑا دھچکا ہوگی۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ناختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حزب اللہ نے سرحد پر واقع اسرائیلی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور اسے غزہ کے لیے ’بیک اپ فرنٹ‘ قرار دیا۔
اس دوران حسن نصر اللہ نے دعویٰ کیا حزب اللہ کے سرحد پار حملوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور غزہ میں حماس پر توجہ مرکوز کرنے سے روکا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں حملے نہیں روکے گی، حزب اللہ بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
چند ہفتوں قبل لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد بھی نصراللہ نے حماس کی حمایت کے موقف کو تبدیل نہیں کیا۔
پیجر دھماکوں کے بعد جاری ہوئی تقریر میں حزب اللہ کے سربراہ نے لبنان میں اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملوں کو ایک ’موقع‘ سے تعبیر کیا۔
اب اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز بیروت پر کیے گئے حملوں میں حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز کو شہید کردیا ہے تاہم اس حوالے سے باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔