الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو انٹرا پارٹی انتخابات کروانےکے لیے 60 روز کی مہلت دے دی۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے کیس کی، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف)کی جانب سے جونیئر وکیل پیش ہوئے۔
چیمپئنز ٹرافی 2025: آئی سی سی وفد انتظامات، سیکیورٹی امور کا جائزہ لینے نیشنل اسٹیڈیم پہنچ گیا
دوران سماعت جے یو آئی (ف) کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان کی پارٹی کے انتخابات مرحلہ وار ہو رہے ہیں، سب سے زیادہ ضلعی یونٹس کے انتخاب میں وقت لگا ہے، ہم نے دستاویزات جمع کرائی، جس میں انتخاب کا شیڈول دیا ہوا ہے۔
وکیل جے یو آئی (ف) نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ جولائی سے انٹرا پارٹی انتخاب کا عمل شروع ہو چکا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے 60 دن مہلت دی جائے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ 60 دن تو زیادہ ہیں جس پر وکیل جے یو آئی (ف) نے مؤقف اپنایا کہ آئینی اصلاحات کا معاملہ چل رہا ہے جس کی وجہ سے مصروفیت تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا کہ آئینی اصلاحات کا انٹرا پارٹی انتخاب سے کوئی تعلق نہیں، 29 ستمبر کو وفاق میں جے یو آئی ( ایف) کا الیکشن ہے اس کے بعد آپ کو مہلت نہیں ملے گی۔
بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے جے یو آئی (ف) کو انتخابات کروانے کے لیے 60 روز کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی، تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
29 اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جے یو آئی (ف) کے خلاف انٹرا پارٹی انتخابات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا وقت مکمل ہونے پر جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ ختم ہو چکا۔
اس سے ایک روز قبل کیس کی سماعت کے دوران انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو طلب کیا تھا، کمیشن کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جے یو آئی (ف) نے تاحال انٹراپارٹی الیکشن مکمل نہیں کیے اورنہ ہی الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ جمع کروائے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔
اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 23 نومبر 2023 کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا اور وہ پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہیں۔