صوبہ پنجاب کے علاقے کالا باغ ٹاؤن میں چہلم کے جلوس کے راستے پر دو فرقہ پرست گروپوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔
تشکر اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں کی شناخت علی ولد برکت اللہ سکنہ ماڑی اور دلیل عباس ولد عقیل عباس سکنہ ککرانوالہ کے نام سے ہوئی ہے۔
کسی سے لڑنا نہیں چاہتے لیکن ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے، ایرانی صدر
ریسکیو 1122 ذرائع کے مطابق گولیوں سے زخمی ہونے والے 30 سے زائد افراد کو کالاباغ ٹی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا گیا، ان میں سے 26 کو بعد ازاں ریسکیو 1122 ایمبولینسز کے ذریعے میانوالی ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا گیا اور دو کو تشویشناک حالت کے پیش نظر راولپنڈی کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ذرائع نے تشکر کو بتایا کہ 26 زخمیوں کو بہترین دستیاب علاج فراہم کیا جا رہا ہے اور امید ہے کہ ان میں سے 7 افراد کو ایک یا دو دن میں ڈسچارج کر دیا جائے گا۔
مقامی ذرائع کا کہنا تھا کہ کہ دونوں فریقوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ پیر کی شام شروع ہوا اور رات گئے تک جاری رہا۔
دریں اثنا مقامی تاجر تنظیموں کی کال پر کالا باغ ٹاؤن میں منگل کو بازار بند رہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی نفری علاقے میں گشت کرتی رہی۔
صورتحال کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے ضلع میانوالی میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جبکہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متعدد نامزد نامعلوم افراد کے خلاف قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
دریں اثنا پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور اور سیکریٹری داخلہ نورالامین مینگل نے مذہبی اسکالرز کی ٹیم کے ہمراہ منگل کو میانوالی اور کالاباغ کا دورہ کیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مفتی راغب نعیمی، ڈویژنل امن کمیٹی لاہور حافظ زبیر حسن، جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب پرنسپل، جامعہ المنتظر ماڈل ٹاؤن لاہور کے قاسم علی قاسمی بھی آئی جی پی اور پنجاب کے ہمراہ آنے والے علمائے کرام میں شامل تھے۔
دورے کے دوران آئی جی پی اور سیکریٹری داخلہ نے فرقہ وارانہ گروہوں کے مقامی رہنماؤں اور ضلعی امن کمیٹی کے اراکین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انہیں علاقے میں امن برقرار رکھنے کے اپنے عزم پر قائم رہنے کا مشورہ دیا۔
دونوں فرقوں کے رہنماؤں نے چہلم کے جلوس کے روٹ کے حوالے سے چند روز قبل ضلعی امن کمیٹی کی موجودگی میں جو معاہدہ کیا تھا اس کی پاسداری کا عہد کیا، قائدین نے جھڑپ کو بڑھاوا دینے کے لیے کچھ شرپسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
مقامی لوگوں نے تصادم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جو جلوسوں میں اسلحہ لے کر آنے والے شرپسندوں کو روکنے میں ناکام رہے۔