بھارتی حکام نے ریاست آسام میں ایک بل متعارف کروایا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو اپنی شادیوں اور طلاق کا اندراج کروانا پڑے گا، آسام کی وزیراعلی نے دعوی کیا ہے کہ اس اقدام سے کم عمری میں شادی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
الیکشن ایکٹ میں ترامیم کیخلاف درخواست: اٹارنی جنرل معاونت کیلئے طلب
تشکر اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اس بل کو حکومت کے تجویز کردہ مشترکہ سول کوڈ قانون کی طرف ایک ریاستی اقدام کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جس کو مسلمان اپنے مذہب پر حملہ تصور کرتے ہوئے سختی سے مسترد ک ررہے ہیں۔
بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی مشترکہ فوجداری قانون کے تابع ہے، لیکن شادی، طلاق اور وراثت جیسے قوانین مختلف مذاہب اور کمیونٹیوں کی روایات کے مطابق ہیں۔
بھارتی ریاست آسام میں دوسرے مذاہب کے لیے شادیوں کے لیے شہری حکام کے پاس اندارج کرنا ضروری ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت آسام کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ بل اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
شمالی مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کا کہنا ہے کہ ہمارا بنیادی مقصد کم عمری میں شادی کی روک تھام ہے
ہمانتا بسوا سرما نے کہا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو شادیوں اور طلاق کے لازمی اندارج کے بل سے مذہبی رسومات کو محدود نہیں کیا جائے گا بلکہ اس بل کے ذریعے صرف شادیوں اور طلاقوں کے اندراج کو یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بل کم عمری کی شادیوں کے خطرے کو روکنے کے ساتھ خاص طور پر خواتین کے لیے حفاظتی اقدامات اور فوائد فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس مہینے کہا تھا کہ ’وہ وہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے قانون ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تاکہ تمام مذاہب اور مذہبی برادریوں کے ذاتی معاملات کے لئے قوانین کو معیاری بنایا جاسکے۔‘
تاہم بہت سی برادریوں خاص طور پر مسلمانوں کو ڈر ہے کہ یکساں سول کوڈ ان کے مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ یہ قانون برابری قائم کرے گا، یاد رہے کہ نریندر مودی نے 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قوانین جو مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرتے ہیں، جو عدم مساوات کی وجہ بنتے ہیں، ان کی جدید معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔