لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کے خلاف درخواست کی سماعت میں وفاقی حکومت کے وکیل کو فوری طلب کرلیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ درخواست گزار کیسے متاثرہ فریق ہے۔
چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، سپریم کورٹ
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم غیر آئینی ہے، ایک سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں دینے سے روکنے کے لیے ایکٹ منظور کیا گیا، عدالت الیکشن ترمیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو فوری طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا، درخواست میں وفاقی حکومت الیکشن کمیشن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 9 اگست کو الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
7 اگست کو پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
6 اگست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
حکومتی ارکان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا تھا، بل مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔
6 اگست کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
27 مئی کو قائم مقام صدر و چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے 2 آرڈیننس جاری کردیے گئے تھے۔
پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا، ترمیمی بل
ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔