وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت کا ترجیحی ایجنڈا معاشی اصلاحات ہیں، آئی پی پیز پر نظر ثانی کے حوالے سے بھی مشاورت اور معاملات چل رہے ہیں
اسلام آباد میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ ایم کیو ایم کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران بات چیت میں بجلی کے معاملات زیر غور آئے۔
پیکا ایکٹ کا مقدمہ: رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن و دیگر کی ضمانت منظور
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان حکومت کی اتحادی جماعت ہے، معاشی اصلاحات وزیراعظم محمد شہباز شریف کی حکومت کا ترجیحی ایجنڈا ہے، حکومت کا ترجیحی ایجنڈا معاشی اصلاحات ہیں۔
عطا تارڑ نے کہا کہ بجلی کا معاملہ پوری قوم اور ہر پاکستانی کا معاملہ ہے اور آپ کو یاد ہوگا جب 18، 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، جب 2018 میں ہماری حکومت آئی تو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا، بجلی کو باقاعدہ متوازن کیا گیا، پنجاب اور وفاقی حکومت نے 2 آر ایل این جی کے سستے ترین پلانٹ لگائے، اس وقت وہ دنیا کے سستے ترین پلانٹ تھے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ شہباز شریف کی حکومت نے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت بجلی سپلائی کمپنیوں کی نجکاری کا اعلان کیا، اس کے بعد قانون میں ترمیم کی گئی اور نجکاری کا عمل شروع ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دیا گیا، اوور بلنگ اور بجلی چوری روکنے کے لیے اقدامات پر گہری نظر ہے، کل بل جمع کرانے کی آخری تاریخ میں 10 روز کی توسیع کی گئی تاکہ اوور بلنگ اور مزید ریلیف دینے کے حوالے سے معاملات کو دیکھا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کا مسئلہ سیاسی نہیں، یہ معاملہ 90 کی دہائی میں شروع ہوا، اس کے بعد ہر دور میٰں یہ پلانٹ لگتے رہے مگر اب معاملہ یہ ہے کہ اس سسٹم کو آگے کیسے لے کر چلنا ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ معاشی اصلاحات میں جو اقدامات کیے گئے چاہے وہ بجلی چوری روکنے، پلانٹس کی نجکاری، سبسڈی دینا ہو اور چاہے آئی پی پیز پر نظر ثانی ہو جس کے لیے پہلے سے کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں وزیر توانائی اویس لغاری اور سیکریٹری توانائی نے کام کیا ہے، آئی پی پیز پر نظر ثانی کے حوالے سے بھی ان کی مشاورت اور ان کے معاملات چل رہے ہیں، یہ وزیر اعظم کا اپنا ایجنڈا ہے، کون نہیں چاہتا کہ بجلی سستی نہ ہو، یہ تو پوری قوم کا ایجنڈا ہے، وزیراعظم کی کوشش تھی کہ مالی گنجائش پیدا کی جائے تاکہ بجلی سستی ہو۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، سلیمان شہباز کے بارے میں بات کردی گئی، بعد میں پتا چلا ان کا پلانٹ سستی ترین بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ ہے اور ان کی کپیسٹی پیمنٹس بھی نہیں جا رہیں، نگران وزیر نے پہلے یہ بات کی اور پھر اس کی وضاحت کی اور کہا کہ مں مانتا ہوں کہ ان کا پلانٹ سستا ترین ہے۔
اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک بہت ذمےدار جماعت ہے، ہم نے ملکی مسئلے پر سیاست برائے سیاست کا طریقہ کار نہیں اپنایا، ہم نے آئی پی پیز کے معاملے پر کسی سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، کوئی الزام نہیں لگایا، نہیں کہا کہ فلاں وقت آئی پی پیز لگے اور فلاں ذمے دار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسائل بتا کر آپ کے پوائن بن جائیں لیکن لوگوں کا مسئلہ حل نہیں ہونے والا، ملکی مسائل کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان اس وقت بہت ہی چیلنجنگ ماحول سے گزر رہا ہے، آئیڈیل صورتحال نہیں ہے، ہم آئی ایم ایف کے قرض دار ہیں، اس کی حدود ہیں، بہت مسائل ہیں جن کی ہم نشاندہی اور اس کے حل پر بھی ہمیشہ بات کی۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ موجودہ معاہدے اس وقت ملک کےلیے سب سے بڑا زخم ہیں، یہاں سے ملکی معیشت کو خون رس رہا ہے، ہم گردشی قرض کے 26 ارب روپے کے قرض دار ہیں، ہم نے بجٹ میں 17سو ارب روپے ابھی رکھے ہیں، اس طرح سے معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے، یہ اسٹرکچر مزید نہیں چل سکتا، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ہم نے اس حل پیش کیا کہ باہر کی کمپنیوں کو چھوڑین، حکومتی اور مقامی کمپنیوں سے بیٹھ کر بات کی جائے، آج کی ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ خود ان کی اپنی ترجیح ہے، ان کی اور ہماری سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے اور انہوں نے آگاہ کہ انہوں نے اس حوالے سے کتنا کام کرلیا ہے، جب ان چیزوں پر عمل ہوگا تو نظر آئے گا، میں پہلے سے اس بارے مٰیں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔