اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔
تشکر نیوز کے مطابق اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کر رہے ہیں،عمران خان، بشریٰ بی بی کے وکلا سلمان صفدر، عثمان گل، خالد یوسف چوہدری و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نظر ثانی درخواست خارج کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب سب کلیئر ہوچکا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر پرانی ٹائم لائن برقرار رکھی ہے۔
عدت نکاح کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی کی سزا کیخلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت جاری
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت میں جو درخواست آئی ہے وہ معاملہ ابھی زیر التوا ہے ، ہونا وہی ہے جو ہائی کورٹ چاہے گا، وکیل نے بتایا کہ اگر ان کی کوئی حقیقی وجہ ہوتی سماعت ملتوی کرنے کی تو ہم خود اس کی تائید کرتے، ان کے پاس درست راستہ یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے، اگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے کوئی میسج آنا تھا تو وہ واضح طور پر آگیا ہے، ان کی درخواست میں سیشن جج سے دس دن کی غیر حاضری کا مؤقف اپنا کر چھٹی لی گئی ہے، شکایت کنندہ کے پاس کسی اور کونسل کو کھڑا کرنے کا آپشن ہوتا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اب 2 فیصلے آچکے ہیں، دریافت کیا کہ آپ نے صرف اسلام آباد کے وکلا کو ریلیف دینا ہے کیا ؟
اس پر جج افضل مجوکا نے بتایا کہ مجھے آدھے گھنٹے کے وقت دیں، ڈیڑھ بجے تک سن لیتے ہیں، خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کے معاون وکیل نے کہا کہ نظر ثانی اور زیر التوا کی درخواستیں الگ الگ ہیں، جنرل التوا کی درخواست سیشن جج کی عدالت میں دی جاتی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ آفس سے کال آگئی ہے کہ دو اپیلیں خارج کردی گئی ہیں ، مجھے کال پر یہ کہا گیا اس درخواست کے حوالے سے کچھ دیر میں آگاہ کیا جائے گا اس لیے ڈیڑھ بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں۔
نہرو بامقابلہ مودی: ’سائیکل بیل گاڑی سے ٹکرا سکتی ہے، جہاز سے نہیں‘
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکلا نے زاہد آصف ایڈوکیٹ کے معاون وکیل کو بولنے پر اعتراض اٹھادیا۔
معاون وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے کل ہی بتایا تھا کہ اس التوا کی درخواست کے حوالے سے ہائی کورٹ کو آگاہ کردیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک کا وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج افضل مجوکا نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں، ہم کیس سنیں گے۔
اس کے بعد سابق خاتون اول کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ پوائنٹس پر عثمان ریاض گل اور کچھ پر خدیجہ صدیقی دلائل دیں گی، میں سب سے پہلے سیاسی انتقام کے حوالے سے سے بات کروں گا، بشریٰ بی بی عمران خان کی بیوی ہیں اور عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں، بشریٰ بی بی بیوی ہونے کی وجہ سے سیاسی انتقام کا سامنا کررہی ہیں ، عمران خان کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں ہوئیں ان میں یہ ایک اہم کیس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس سیریز میں چل رہے ہیں، سارے کیسز صرف اور صرف سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ہیں، اس کیس کے علاوہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی بھی کیس نہیں ہے۔
سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ خواتین کا معاملہ خواتین جانتی ہیں ، میری استدعا ہے کہ کچھ خواتین باہر کھڑی ہیں ان کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میں نے کسی کو نہیں روکا ہوا ، اگر کوئی ایسی بات ہے تو یہ انتظامیہ کے پاس اختیار ہے۔
بعد ازاں وکیل نے کہا کہ دلائل میں میرا دوسرا نقظہ عوامی تاثر ہے م عدت میں نکاح کو جرم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے ،پہلی بار میں ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ سب مقدمات میں سے صرف عدت والا کیس ہے جو کہ بہت بیہودہ ہے، ہم نے دیکھا کہ ریکوری کیسز میں ملزم کی جگہ بھائی ، باپ وغیرہ کو اٹھا لیا جاتا ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف جذباتی، اخلاقی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ آپ کے سامنے یہ بھی کنڈکٹ ہونا چاہیے کہ جب سزا دلانی ہو تو رات کے وقت بھی عدالت لگی رہی، اب دس دس دن دور بھاگا جا رہا ہے، خاص طور پر اس کیس میں قانون کا مذاق اڑایا گیا ہے، ملک میں شادی اور طلاق روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر ایسا کیس کبھی بھی نہیں آیا، اجمل قصاب ، بینظیر کیس ، ممتاز قادری کیس جیل میں ہوتے رہے مگر ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کا کیس اگر تھانے میں بھی آجائے تو اسے ذاتی طور پر حل کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے ، مگر ٹرائل کرنے والے جج صاحب نے رات گئے تک عدالت لگائے رکھی، ایسے کیسز میں پراسیکیوشن نے صرف ملکی خزانہ ضائع کیا ہے ، سابق وزیر اعظم کے خلاف سب سے پہلے کرپشن ڈھونڈی جاتی ہے وہ نہیں ملتی تو اس کیس کی طرف آتے ہیں، ایک بات کی تسلی تو ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی بھی دوسری کرپشن وغیرہ نہیں ملی ہے۔
یاد رہے کہ آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔
گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اہمیت رکھتا ہے، میں اس کی خلاف ورزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
واضح رہے کہ 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 8 جولائی ملتوی کرتے ہوئے جج افخل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ 12 جولائی تک ہر حال میں فیصلہ سنانا ہے۔
2 جولائی کو وکیل سلمان اکرم راجا نے سزا معطلی کے درخواست مسترد ہونے کے فیصلے پر جزوی دلائل دیے تھے۔
واضح رہے کہ 27 جون کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست مسترد کردی تھی۔
13 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر 10 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی تھی، ساتھ ہی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم بھی دے دیا۔
عدت نکاح کیس میں عمران خان و بشریٰ بی بی کو سزا
3 فروری کو سول عدالت نے سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدت نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو عدت نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی تھی۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
عدت نکاح کیس کے اندراج کا پسِ منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔