ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے رہنما پی ٹی آئی اور عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کے خلاف اقدام قتل کیس میں پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ملٹری کسٹڈی میں موجود ملزمان کی فہرست جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے پی ٹی آئی رہنما حسان نیازی کے خلاف اقدام قتل کیس کی سماعت کی، حسان نیازی کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ حسان نیازی ملٹری کسٹڈی میں ہیں، عدالت ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرے، حسان نیازی کو ایبٹ آباد سے اٹھایا گیا، فیملی اور وکلا سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
اقدام قتل کیس: پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی حسان نیازی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
وکیل نے کہا کہ کورٹ آرڈر کے بعد ملاقات ہوئی تو پتا چلا حسان نیازی پر تشدد کیا گیا ہے، حسان نیازی کا آج تک میڈیکل بھی نہیں ہوا۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ حسان نیازی کی میڈیکل رپورٹ ریکارڈ کے ساتھ لگائی ہے جس پر وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ 6 ماہ پہلے کی لگائی گئی ہے، رپورٹ کے مصدقہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ حسان نیازی کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ حسان نیازی کو عدالت پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ابھی فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔
عمران خان کے اکاؤنٹ سے متنازع ٹوئٹ: ایف آئی اے نے بیرسٹر گوہر، رؤف حسن کا بیان ریکارڈ کرلیا
نعیم پنجوتھا نے مؤقف اپنایا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت نے کرنا ہے، حکومت کا کیا یہی کام ہے کہ وہ غائب کر دے اور کہے کہ ہمیں پتا نہیں؟ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے لسٹ جمع کروائی تھی کہ حسان نیازی سمیت 104 ملزمان ملٹری کسٹڈی میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حسان نیازی نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف بیان نہیں دیا، اس لیے انہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔
جج عباس شاہ نے ہدایت کی کہ ملٹری کسٹڈی میں جو ملزمان ہیں ان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی جائے، ہفتے کو حسان نیازی کے پروڈکشن آرڈر کی درخواست پر فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے حسان نیازی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ اگست 2023 میں حسان خان نیازی کو ایبٹ آباد سے گرفتار کر لیا گیا تھا, حسان نیازی کو پولیس نے 13 اگست کو ایبٹ آباد سے گرفتار کیا تھا جو 9 اور 10 مئی کے مظاہروں کے بعد سے روپوش تھے۔
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی میں ملوث 1900 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔