تحریر: سعید آرائیں
سوشل میڈیا پر موجود ایک دکھی شخص کی پوسٹ فریاد کی صورت میں موجود ہے جس میں متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ مجھے بجلی کا ایک ماہ کا بل تیس ہزار روپے کا بھیجا گیا ہے جس میں گیارہ ہزار روپے کے ٹیکس شامل کیے گئے ہیں جب کہ بجلی و گیس سمیت ہم بازار سے جو بھی اشیائے خوردنی اور روز مرہ کے استعمال کی کوئی بھی چیز خریدتے ہیں۔
اس پر حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے اور سرکاری طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے پنشن کو بہت بڑا بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک خیرات نہیں ٹیکس پر چلتے ہیں۔ ٹیکس کلچر میں تبدیلی پر بھی انھوں نے زور دیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق سخت مالی حالات میں مبتلا حکومت کی شاہ خرچیوں میں کمی نہیں آ رہی اور ای سی سی اجلاس میں سابقہ اور موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے سرکاری ملازمین کے لیے اعلان کردہ اضافی تنخواہیں بھی جاری کرنے کی منظوری دی گئی اور حکومت نے ملک کے گمبھیر معاشی حالات کے باوجود وزیر اعظم ہاؤس کی مزید تزئین و آرائش کے لیے 162.5 ملین روپے منظور کیے ہیں جب کہ سیکڑوں ارب کی مقروض پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کیوں پیچھے رہتی اس نے بھی اپنے وزیروں کی مراعات میں اضافہ کر دیا ہے اور جس وزیر کو گھر کے ماہانہ کرائے کی مد میں ستر ہزار روپے دیے جا رہے تھے اسے اب دو لاکھ روپے ملیں گے جب کہ دیگر مراعات بھی بڑھا دی گئی ہیں۔
ملک میرا گلشن، عوام کا خدا حافظ
سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے کہ 50 سال سے عوام کو مسلسل دھوکا دیا جا رہا ہے اور روٹی کپڑے و مکان سے ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں نے عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا کیا نہ عوام کو کوئی ریلیف دیا۔ ملک پر مسلسل قرضوں کا وہ بوجھ بڑھایا گیا جو عوام نے لیے ہی نہیں مگر ملک کا دنیا میں آنے والا بچہ بھی مقروض پیدا ہو رہا ہے۔
ملک کے لیے لیے گئے قرضے عوام پر تو اب تک خرچ نہیں ہوئے وہ تمام حکمرانوں کی عیاشیوں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ حکمران اپنی مراعات مسلسل بڑھا رہے ہیں اور دوسروں سے خیرات مانگنے والے حکمران شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ان کے گھروں پر غیر ضروری طور پر اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک یورپی ملک کے وزیر اعظم کو سائیکل پر سفر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس سے ہم بھی قرض لے چکے ہیں اور پاکستان جیسے مقروض ملک کا وزیر اعظم قیمتی درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں شاہانہ طور پر سفر کرتا نظر آتا ہے۔
ملک کا ہر بچہ ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض ہے اور وزیر اعظم نے کفایت شعاری کا اعلان کیا تھا جب کہ قرضوں میں ڈوبے ملک کی افسر شاہی پر حکومتی نوازشات جاری ہیں جس پر آئی ایم ایف نے بھی اعتراض کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے افسروں کی تنخواہیں پہلے ہی زیادہ ہیں مگر انھیں پانچ اضافی تنخواہیں صرف انھیں خوش کرنے کے لیے دی گئی ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کے لیے کسی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے بلکہ قرضوں کے بوجھ، شدید مہنگائی اور مہنگی ترین بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات خریدنے والی عوام عشروں سے ریلیف سے محروم چلی آ رہی ہے۔
اپریل میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 172 فیصد اضافہ
عوام آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ تو پہلے ہی اٹھا رہے ہیں جو انھوں نے نہیں حکومتوں نے لیے عوام اپنے بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے خود اپنوں سے قرضے لے کر گھریلو اخراجات پورے کر رہے ہیں اور متوسط طبقہ بالکل پس کر رہ گیا ہے اور بلبلا گیا ہے۔ عوام کو تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے مگر سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم ہے نہ سہولتیں بلکہ عملہ بھی نہیں ہے۔سرکاری اسپتالوں میں دوائیں ہیں نہ عملہ اور نہ ڈاکٹر، عوام مجبور نجی اسپتالوں میں جا کر مزید لٹ رہے ہیں۔ عوام کے مطابق حکومت انھیں صرف شناختی کارڈ دے رہی ہے وہ بھی مفت نہیں بلکہ نادرا دفاتر میں ہفتوں دھکے کھانے، خوامخواہ کے اعتراضات دور کرنے میں مہینوں ضایع کرنے کے بعد قومی شناختی کارڈ بہ مشکل ملتا ہے۔
عوام ملکی حالات سے تنگ آ کر باہر جانا چاہتے ہیں تو انھیں جلد پاسپورٹ نہیں ملتے موجودہ حکومت نے نیا ظلم یہ کیا ہے کہ پاسپورٹ کی فاسٹ ٹریک فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا ہے۔ جو لوگ باہر جانا نہیں چاہتے اور اپنے اسی گلشن ملک میں رہنا چاہتے ہیں حکومتوں نے انھیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔
گزشتہ مہینوں میں لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور وہ کیسے گئے وہ وہی جانتے ہیں۔ قانونی طور پر ملک چھوڑ کر جانا آسان نہیں اس لیے روزگار کی تلاش میں جانے والے غیر قانونی ذرایع استعمال کرکے لٹ اور مر رہے ہیں اور پکڑے جانے والے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
اس ملک کو عوام اپنا گلشن سمجھتے ہیں جس کو آباد رکھنے کے لیے عوام تنہا عشروں سے قربانیاں دے رہے ہیں جن کا اب ملک میں جینا ہی دشوار بنا دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے بچوں کو پال پا رہے ہیں نہ انھیں تعلیم دلا پا رہے ہیں یہ ملک عوام کا گلشن ضرور ہے مگر بھاری تنخواہیں لینے والے اکثر اعلیٰ افسران اور سیاستدانوں نے غیر ممالک کی شہریت لے رکھی ہے۔ ان کا مستقبل اس گلشن سے وابستہ نہیں یہ گلشن انھیں لوٹنے اور کمانے کے لیے ہے ان کے مفادات بھی دیگر ممالک سے وابستہ ہیں۔ایک مشہور گانا تھا کہ یہ گھر میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ۔ اس گلشن میں اب وہی رہ گئے ہیں جو یہ ملک چھوڑ نہیں سکتے۔
پی پی کے وزیر اعظم گیلانی نے 14 سال قبل کہا تھا کہ ’’ جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں جائیں انھیں روکا کس نے ہے۔ ‘‘ ملک میں رہنے والوں کو روکا اس گلشن نما ملک نے ہے جس سے انھیں محبت ہے یا وہ باہر جانے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اس گلشن کو چھوڑنے والوں کو مجبور ان تمام عوام دشمن حکومتوں نے کیا جنھوں نے عوام کا جینا اس گلشن میں ناممکن بنا دیا ہے جنھوں نے غیر ممالک سے خیرات مانگی نہ قرضے لیے مگر ان کی نسلیں بھی مقروض بنا دی گئی ہیں جب کہ یہ گلشن سب کا تھا اور اب اس کا خدا ہی حافظ ہے۔