جھوٹے الزامات پر سیاست کب تک ؟

تحریر: سعید ٓآرائین

سیاست کو کبھی عوام کی خدمت کا ذریعہ اور عبادت تک کہا جاتا تھا جسے اب منافقت، جھوٹے الزامات اور اپنے مخالفین کی کردار کشی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور اب صحت بھی سیاست سے محفوظ نہیں رہی، اب سیاستدان اپنی بیماری پر سیاست کرتے ہیں۔

پمز اسپتال کے تین ڈاکٹروں نے بشریٰ بی بی کو صحت مند قرار دیتے ہوئے انھیں کھانے میں احتیاط کا مشورہ دیا ہے مگر پی ٹی آئی کو اس رپورٹ پر بھی اعتراض ہے ۔ بشریٰ بی بی کی یہ علالت اور عمران خان کی رہائی کو پی ٹی آئی نے ملک کا سب سے اہم مسئلہ بنا دیا ہے۔

جھوٹے الزامات پر سیاست کب تک ؟

صحت ایک اہم مسئلہ ہے جس پر سیاست کرکے سیاسی مفاد تو حاصل کیا جاسکتا ہے مگر سیاست پر اس کا جو بھی اثر ہو مگر مریض کو جانی نقصان ضرور ہو سکتا ہے جس طرح پی ٹی آئی حکومت میں بیگم کلثوم نواز کا ہوا تھا اور پی ٹی آئی ان کی بیماری کو تسلیم ہی نہیں کر رہی تھی جب کہ کلثوم نواز واقعی شدید بیمار تھیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو خود وزیر اعظم عمران خان نے بیماری کے باعث لندن بھیجا مگر پی ٹی آئی ورکرز نے لندن میں اس اسپتال کے خلاف بھی خبریں چلائیں ،جہاں نواز شریف داخل تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت میں اتنی سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا کہ جیل میں قید نواز شریف کو ان کی بیگم سے لندن فون پر بات کرانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جب کہ اب عدالتی حکم پر بشریٰ بی بی کو علاج و معالجے اور میڈیکل چیک اپ کی اجازت اور سہولت مل رہی ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔

مہنگے ریلوے سفر میں بدحال مسافر

اگر دوران قید بشریٰ بی بی کی صحت مزید بگڑی تو ساری ذمے داری حکومت پر ہی آئے گی اس لیے حکومت بشریٰ بی بی کی علالت کو مزید سنجیدگی سے لے کیونکہ کسی حقیقی بیمار کی بیماری پر سیاست کسی طور مناسب نہیں۔ ملک میں اس وقت جھوٹوں کی سیاست اس مقام پر پہنچا دی گئی ہے جہاں جھوٹ اور سچ کی تمیز ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ویسے ہر حکومت میں یہ ہوتا آیا ہے کہ حکومت کے سچ کو بھی سچ نہیں سمجھا جاتا اور عوام حکومت کی ہر بات کو جھوٹ قرار دیتے ہیں اور اس کی ذمے دار ہر حکومت رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں میڈیا پر سخت پابندیاں تھیں اور سرکاری خبروں پر عوام یقین نہیں کرتے تھے اور ان کا یقین صرف بی بی سی کی خبروں پر تھا مگر اب وہ پابندیاں تو نہیں مگر سرکاری طور پر اب بھی حقائق میڈیا پر نہیں دیے جاتے مگر سوشل میڈیا کے باعث اب حقائق چھپانا ممکن نہیں رہا۔

نجی میڈیا پر تو حکومتی کنٹرول کا اثر ہو جاتا ہے مگر سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں جس کی وجہ سے حقائق سے زیادہ اب سوشل میڈیا جھوٹ پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے جس سے سوشل میڈیا کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی قوم تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اور لوگ صرف اپنی پسند کی خبروں پر یقین کرتے ہیں اور اس تقسیم کا سوشل میڈیا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے وہ کچھ پیش کیا جا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر یہ سب کچھ چل رہا ہے۔

ملک میں جھوٹوں کی سیاست اس وقت عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کا اس میں اہم کردار ہے جس نے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے میں تمام پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے اور کوئی بھی پارٹی جھوٹوں کی سیاست میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی اس روش کو چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں۔سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی خبروں، پوسٹوں اور وی لاگز سے ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں اور بیرون ممالک بیٹھے وی لاگرز نے تو جھوٹ پھیلانے کی حد کر دی ہے اور وہ اس سلسلے میں ملک دشمنی سے بھی گریز نہیں کر رہے جو کسی طور پر مناسب نہیں ہے مگر اپنی اپنی سیاست اور پسندیدہ سیاستدانوں کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہے۔

سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور اس پر پھیلائے جانے والے جھوٹوں پر اظہار تشویش کیا جا رہا ہے مگر جھوٹ پھیلانے والوں کو کوئی فکر نہیں کہ اس طرح دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی اور ملکی سلامتی داؤ پر لگائی جا رہی ہے۔ کوئی سیاستدان ان جھوٹوں اور جھوٹی سیاست سے محفوظ نہیں اور شرم ناک حد تک سوشل میڈیا پر مواد موجود ہے۔

تقریباً دو عشروں سے جھوٹوں پر سیاست جاری ہے۔ سوشل میڈیا ہی نہیں بعض سیاسی شخصیات مخالفین کے خلاف جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے اور ملک میں موجود عزت ہتک کا قانون بے بس ہے۔

توہین عزت اور جھوٹے الزامات کے فیصلے سالوں نہیں ہوتے اور ملک کا کوئی بھی ادارہ جھوٹوں اور جھوٹے الزامات سے محفوظ نہیں مگر کوئی ادارہ یا حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے اور سب ہی جھوٹوں کی سیاست کے آگے غیر محفوظ اور بے بس نظر آتے ہیں۔اس وقت جھوٹوں کی سیاست تشویش ناک ہو چکی ہے جس کے تدارک کے لیے سب کو مل کر اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا، ورنہ صورت حال مزید بگڑتی جائے گی۔

 

 

60 / 100

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!